شہید شیہک جان بلوچ کی تیسری برسی – شئے رحمت بلوچ

333

شہید شیہک جان بلوچ کی تیسری برسی

تحریر :شئے رحمت بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اکثر میں یہی سوچتا ہوں کہ قیامت کی مختلف قسمیں ہیں۔ ہم پتہ نہیں کونسی قیامت میں رہ رہے ہیں۔ قیامت میں بھی اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا، جتنا ظلم پاکستانی ظالم فوج ہمارے قوم کے ساتھ کررہا ہے۔ لوگوں کو قیامت کا انتظار تو ضرور ہوگا کیونکہ اس غم اور ظلم سے جان تو چھوٹ جائیگا۔ اپنوں کی درد یقیناً موت اور قیامت سے کم نہیں۔ موت سے لوگ ایک بار مرتے ہیں۔ لیکن اس غم سے لوگ روز ہزار بار مررہے ہیں ۔ ظلم اپنی اتنہا کو پہنچ چکی ہے۔ اتنا ظلم کوئی بھی برداشت نہیں کر سکتا، لوگ اپنے پیاروں کی لاشیں کیسے اٹھاتے ہیں؟ اور کس طرح سے اس غم میں پوری زندگی کو گذار لیتے ہیں۔ میں اتنا قابل لکھاری تو نہیں لیکن یہ الفاظ پڑھ کر، ان کو یہ درد ضرور محسوس ہوگا، جو اس درد سے گذر کر یہاں پہنچے ہیں۔ ان کو محسوس ہوگا جنہوں نے اپنے پیاروں کی بہتے ہوئے خون کو دیکھا ہے۔ جنہوں نے لاش کندھوں پہ اٹھایا ہے۔ بلوچستان میں ہر شخص اس درد کو محسوس کریگا کیونکہ بلوچستان کا ہر شخص اس درد سے گذرا ہے۔

بلوچستان میں ہر شخص نے دیکھا، برداشت کیا اور قربانی دی ہے لیکن دشمن کے قدموں میں جھک کر رحم کی بھیک نہیں مانگی ہے۔ وہ اتنا حوصلہ اور جذبہ رکھتے ہیں کہ اپنی جان کی بھی قربانی دینے کو تیار ہیں۔ بلوچستان کی ہر ماں کا آج سر فخر سے بلند ہے اور اپنے بیٹوں کی شہادت پر فخر کرتے ہیں، بات یہاں تک محدود نہیں وہ اپنے باقی بچوں کو بھی اس رستے کا مسافر بنادیتے ہیں۔ شہید شیہک جان نے تو جد و جہد میں ایک الگ ہی مقام حاصل کی ہے۔

شہید شیہک جان ایک انتہائی سادہ مزاج کے مالک اور مہربان تھے۔ شیہک جان کی زندگی کا ایک ہی مقصد تھا، وہ تھا قوم کی آزادی۔ شہید آخری وقت میدان جنگ میں ایک ویڈیو پیغام دیتا ہے، جس میں وہ اپنے لیڈر شپ سے درخواست کرکے بولتا ہے کہ ایسا کوئی عمل نہ کیا جائے کہ جس سے تحریک کو نقصان ہو اور تحریک ٹوٹ جائے اور آزادی کی جنگ رک جائے۔

مزید وہ اپنے رشتہ داروں کو بھی پیغام دیتا ہے کہ آپ لوگ مجھ پر فخر کریں۔ کیونکہ میں بزدلی سے نہیں مرا اگر میں مرا، تو مردانہ طریقہ سے مرونگا۔ اپنے فرزندوں کو کہتا ہے کہ میرے بعد مایوس اور لاچار نہ ہونا۔ ہزاروں شیہک زندہ ہیں، جب تک ایسے جوان زندہ ہیں۔ اس قومی تحریک آزادی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اور ایسے ہزاروں سرمچار موجود ہیں جو دشمن کے آگے پہاڑوں کی مانند کھڑے ہیں۔

جیت ہماری ہوگی ہار دشمن کی ہوگی اور وطن آزاد ہوگی۔