شہدائےمیہی
تحریر:فرید شہیک
دی بلوچستان پوسٹ
اس دنیا میں ہرروز ہزاروں لوگ پیدا ہوتے ہیں اور ہزاروں چلے جاتے ہیں، جو بھی اس دنیا میں وجود میں آیا ہے، تو ایک نہ ایک دن اسے مرنا ہے۔ امیر ہو یا غریب ہو، ایک نا ایک دن مرنا ہے۔ لیکن کچھ ایسے عظیم لوگ بھی ہوتے ہیں جو اپنی ہرخوشی ایک عظیم جہد کیلئے قربان کرتے ہیں اور مرنا پسند کرتے ہیں۔ ایسے شخصیتوں کو دنیا تا ابد یاد رکھتی ہے۔ دنیا میں بہت سے غلام قوموں نے قربانی دے کر اپنی آزادی حاصل کی ہے۔ ایسے اقوام کو دنیا سنہرے الفاظ میں یاد کرتی ہے۔ دنیا میں ناجانے کتنے لوگ اپنے وطن کی آزادی کےلئے اپنے خاندانوں کو قربان کر رہے ہیں۔ اور آج بلوچستان میں بسنے والے بلوچ قوم بھی قابض ریاست پاکستان کے خلاف اپنی قومی آزادی کیلئے برسر پکار ہیں، جس نے 27مارچ 1948 کو بزور طاقت بلوچ قوم کی سرزمین، بلوچستان پر قبضہ کرکے بلوچ قوم کو اپنا غلام بنایا ہے لیکن بلوچ فرزندوں نے روزِ اوّل سے پاکستانی قبضے کے خلاف اپنی بغاوت شروع کی ہے اور آج اس بغاوت نے مظبوط شکل اختیار کیا ہے جسے کمزور کرنا یا ختم کرنا پاکستان کےبس میں نہیں ہے آج بلوچستان کے ہر علاقے میں پاکستان کو مزاحمت کا سامنا ہے۔ آج بلوچستان کے ہر علاقے ہر گھر میں شہیدوں کو یاد کرتے ہیں۔
اسی طرح بلوچستان کے علاقے مشکئے کے ایک گاؤں میہئ جہاں انقلاب کی پھولوں کو خون سے زندہ رکھا گیا ہے۔ میہئ کی سرزمین پر ایک دن دوران
جنگ میں 12 ساتھیوں سمیت بلوچ قومی لیڈر ڈاکٹر اللہ نظر کے دو بھانجوں سمیت بلوچ قومی لیڈر ڈاکٹر اللہ نظر کے بھائی بھی شہید ہوگئے تھے۔ شہدائے میہی جہاں 30 جون 2015 کو بلوچ قوم کے بارہ فرزندوں نے اپنی قومی آزادی کے راہ میں اپنی جانیں قربان کئیں۔
میں ان سرزمین کے سچے اور بہادر نر مزار سرمچاروں کو سلام پیش کرتا ہوں۔ جنہوں نے اپنی قومی آزادی کےلئے اپنے ہر خوشی ہر خواہش، بس ایک عظیم مقصد کیلئے قربان کی ہے۔ ایسے ہستیوں نے اپنے قوم کا نام ونشان کبھی مٹنے نہیں دیا، ایسے عظیم شخصیتوں کو دنیا ہمیشہ یاد کرے گی، آج ایسے جوانوں کے قربانیوں کے بدولت سے ہم زندہ قوم کی حیثیت سے دنیا میں پہچانے جاتے ہیں۔ اس طرح کی قربانی ہمیں کبھی بھولنے نہیں چاہئیں ان کی قربانیوں سے ہمیں رہنمائی حاصل کرکے ان کے عظیم مقصد کو آگے لے جانا چاہیئے۔ آج شہدائے میہئ کے قربانی کو 3سال مکمل ہو چکے ہیں۔ جنہوں نے 2015 کو میدان جنگ میں اپنے دشمن کو شکست دینے کےلیئے اپنے جانوں کو داو پر لگا کروہاں جنگ کے دوران شہید ہوئے تھے۔
ان شہداء میں شہید شہیک,شہید سفرخان,شہید رمضان,شہید زاکر جان, شہید فرہاد, شہید الم خان, شہید خدانظر, شہید گاجی خان, شہید یونس,شہید شاہ فیصل,اور دو بھائی مہمان جو شہید شہیک جان کے گھر آئے ہوئے تھے۔ وہ تعزیت کیلئے آئے تھے، جنہوں نے 3 دن شہید شہیک کے گھر میں گزارے اور دونوں بھائی شہک جان کے ساتھ تھے جب رات 4 بجے پاکستانی آرمی نے شیہک جان کے علاقے کو گہرے میں لے لیا تھا اور 5 بجے جنگ شروع ہوئی۔
دونوں طرف جنگ زوروں سے جاری رہا، شام 9بجے تک۔ دوسرے دن شہیدوں کے ماں باپ ان کے منتظر تھے کہ ہمارے بہادر سرمچار کب دشمن کو شکست دیکر لوٹ آئیں گے۔ اسی دوران ایک بوڑھا آدمی روررہا تھا، تو ہم سب نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ تو اس نے جواب دیا کہ شیہک جان اپنے بھائی اور ماما کے ساتھ 9 اور دیگر ساتھیوں سمیت آزادی کی راہ میں جام شہادت نوش کر گئے ہیں۔
جب سے پاکستان نے بلوچستان کی آزادی اور خود مختیار ریاست کی پرواہ نہ کرتے ہوئے غیر قانونی قدم اٹھاتے ہوئے بلوچ سرزمین پر قبضہ جمایا ہے۔ اس دن سے بلوچوں کی بغاوت ظالم ریاست کے خلاف چل رہی ہے اور ابھی تک برقرار ہے بلوچستان میں کئی نوجوانوں نے بلوچستان کی آزادی کیلئے اپنی جانوں کو داو پر لگایا اور آج تک بلوچ قومی تحریک سے وابستہ اپنی قومی ذمہ داریاں نبھا رہے ہے ۔