بلوچستان کی ڈوریں ابھی کہیں اور سے چلائی جارہی ہیں، صدر بلوچستان نیشنل پارٹی
دی بلوچستان پوسٹ ویب مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی قیادت نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ بلوچستان کو درپیش مسائل کے حل کے لئے ہر سطح پر اقدامات اٹھائے جائیں، یہ اتفاق بلاول ہاؤس لاہور میں سابق صدر آصف علی زرداری اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی قائد سردار اخترمینگل کے مابین ہونے والی ملاقات میں ہوا۔
پیر کے روز سابق وزیراعلیٰ و بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل کی قیادت میں پارٹی کے نمائندہ وفد نے بلاول ہاؤس میں سابق صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کی جس میں بلوچستان سمیت مجموعی ملکی صورتحال، سیاسی امور اور اگلے عام انتخابات کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔ بی این پی کے وفد میں سردار اختر مینگل کے ہمراہ سابق ایم این اے میر عبدالرؤف بلوچ، میر قاسم رونجھو، لعل جان بلوچ شامل تھے جبکہ اس موقع پر عامر فدا پراچہ بھی موجود تھے۔
خبر رساں اداروں کے مطابق دونوں رہنماؤں نے اگلے عام انتخابات کے حوالے سے مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا اس موقع پر آصف زرداری نے بی این پی سربراہ کو بلوچستان کے مسائل کے حل کے لئے ہر سطح پر کردار ادا کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ بلوچستان ملک کا اہم ترین حصہ ہے ہمارے لئے بلوچستان اور سندھ میں کوئی فرق نہیں بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ بلوچستان سمیت تمام صوبے یکساں ترقی کے ساتھ آگے بڑھیں اورملکی تعمیر وترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔
دوسری جانب ملنے والی اطلاعات کے مطابق بی این پی اور پی پی کے مابین اگلے عام انتخابات میں ممکنہ اتحاد پر تفصیلی بات چیت کا ایک دور مکمل ہوگیا ہے ممکنہ اتحاد ابتدائی طور پر صوبائی دارالحکومت کوئٹہ اور لسبیلہ کی سطح پر عمل میں لایا جائے گا جس کے لئے بی این پی اور پیپلز پارٹی کے قائدین میں اتفاق بھی ہوگیا ہے تاہم شرائط طے نہیں ہوئیں۔
دریں اثناء رابطہ کرنے پر بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء ساجد ترین ایڈووکیٹ نے سردار اختر مینگل اور آصف زرداری کے مابین ملاقات اور انتخابی امور پر بات چیت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ فی الحال اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ عام انتخابات کے حوالے سے دونوں پارٹیاں کس نتیجے پر پہنچتی ہیں ۔
تاہم ایک بات طے ہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی صوبے کے حقوق کے حصول کے لئے ہر سطح پر اپنی آواز اٹھائے گی اور جمہوریت و جمہوری استحکام کے لئے اس کے دروازے سب کے لئے کھلے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی سے فی الحال باقاعدہ اتحاد نہیں ہوا تاہم انتخابی امور ضرور زیر بحث آئے ہیں جس کے حوالے سے فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ واضح رہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی نے خضدار کی حد تک ایم ایم اے سے اتحاد کرلیا ہے جس کے بعد اب پی پی سے بات چیت کا سلسلہ جاری ہے جبکہ کوئٹہ کی سطح پر گزشتہ سینٹ انتخابات کے دوران بی این پی ، اے این پی اور ایچ ڈی پی کے مابین جو الائنس بنا تھا ۔
پارٹی ذرائع کے مطابق اس کی فعالیت کے لئے بھی باقی دونوں جماعتوں سے روابط کئے جارہے ہیں ۔ سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ بلوچستان کے فیصلے ابھی بھی لاہور اور اسلام آباد میں ہوتے ہیں اور بلوچستان میں سیاست پارٹی کا بنانے سے بلوچستان کی احساس محرومی ختم نہیں ہوسکتی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ سابق وزیر اعلی بلوچستان نے ایم پی اے کے تاحیات اسمبلی سے نتخواہ لینا ہماری سمجھ سے بالاتر ہے ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز نے NA272 لسبیلہ/ گوادر کی قومی اسمبلی کی نشست کیلے کاغذات نامزدگی جمع کردیئے ریٹرننگ آفیسر آفس حب میں کاغذات نامزدگی جمع کرنے کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ۔
سردار اخترجان مینگل نے کہا کہ بلوچستان کے فیصلے پہلے بھی دادا لاہور میں بیٹھ کرتا تھا اب انکو خیال آیا ہے بلوچستان کے فیصلے باپ یہاں بیٹھ کر کریگا مگر مشکل ہے بلوچستان کی ڈوریں ابھی کہیں اور سے چلائی جارہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مسائل کرنا حکمرانوں کی ذمہ داری ہے ہم اپوزیشن میں رہے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں یہ ہماری خوش قسمتی ہے جو حکومت میں رہے ہیں انکی بدقسمتی ہے گوادر کو حکمرانوں نے نظر انداز کیا ہے ہمارے جو وہاں ایم این اے اور ایم پی ایز رہے ہیں ۔
یہاں تک کہ گوادر کے جو معاہدات ہوئے ہیں جو ملکی سطح پہ ہوں یا بین الااقوامی سطح پر وہاں کے نمائندوں کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا ہے ہمارا جو وہاں ایم پی اے تھا اسکے فنڈز تک روک دیئے گئے تھے ۔
بی این پی نے اپوزیشن میں رہتے ہوئے بھی گوادر مسائل جن میں پانی ہو گوادر کے زمینوں پر قبضہ کرنا ہو اور گوادر کے ماہیگیروں کا مسئلہ ہو جتنے بھی مسئلے ہیں ہم نے ہر وقت اجاگر کیے ہیں اور اسکے لیے احتجاج بھی کیا شائد کسی نے کی ہو۔
انتخابات کے موخر کرنے کے سوال پر سردار اخترجان مینگل نے کہا کہ جو نازک طبعیت کے لوگ ہیں وہ گھر بیٹھ جائیں ان کیلئے سردیوں میں انتخابات کیے جائیں جو جمہوری لوگ ہیں ان کیلئے گرمی یا سردی کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔
انہوں نے گرمیوں میں بھی انتخابات میں حصہ لیا اور سردیوں میں بھی ووٹ ڈالا یہاں تک کہ بلوچستان کے کچھ سرد علاقوں میں جہاں منفی دس ڈگری ہوتی ہے وہاں بھی ووٹ ڈالتے ہیں لوگ اب اگر کچھ لوگوں کو گرمی ہوتی ہے اپنے گھر بیٹھ جائیں۔
ایک سوال کے جواب میں قائد بی این پی نے کہا کہ خضدار میں ہم نے متحدہ مجلس عمل سے اتحاد کرلیا ہے اور باقی جماعتوں کے ساتھ بھی بات چیت چل رہی ہے اور یہاں لسبیلہ میں انشاء اللہ بہت جلد ایک خوشخبری سنوگے۔
انہوں نے کہا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے یہ لوگ ہمیشہ پارٹی بدلتے رہے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ اقتدار سے چمٹے رہے ہیں کوئی ایسی پارٹی نہیں جو اقتدار میں ہو اور یہ لوگ اس سے باہر رہیں کبھی پیپلز پارٹی کبھی مسلم لیگ ن میں کبھی فنکشنل تو کبھی(ق) میں رہے ہیں مگر ابھی انہوں نے ماشاء اللہ اپنا ایک شناخت بنایا ہے ایک وجود بنایا ہے لیکن انگریزی میں ایک مثال ہے Old wine with a new Bottal یعنی وہی پرانی شراب ایک نئے بوتل میں۔
آخر میں سردار اختر مینگل نے کہا کہ اگر بلوچستان کی عوام حقیقی معنوں میں ترقی چاہتی ہے تو جہاں بھی بلوچستان نیشنل پارٹی کے امیدوار ہیں انکو ووٹ دے کامیاب کروائیں۔
آخر میں وکلاء کی خصوصی کی دعوت پر سردار اختر مینگل لسبیلہ بار کونسل ہال گئے اور وہاں وکلاء سے بھی خطاب کیا، اس موقع پر بی این پی لسبیلہ کے ضلعی صدر واجہ قاسم رونجھو نے بھی NA272 لسبیلہ/ گوادر قومی اسمبلی کی نشست کیلے کاغذات نامزدگی جمع کئیے۔