ریاستی درویش کی موت – کوہ دل بلوچ

771

ریاستی درویش کی موت

کوہ دل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ راجی لشکر کا خضدار میں خفیہ اداروں کے کارندوں پر کامیاب حملہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ دشمن کے تمام سامراجی حربوں کو ناکام بنانے کیلئے راجی لشکر ہر وقت تیار رہتا ہے، اور یہ پیغام بھی دیتا ہے کہ حُب الوطنی اور قوم دوستی کا جذبہ آج بھی اس شہر کے نوجوانوں میں برقرار ہے، جس وطن پرستی کی بنیاد شہیدوں نے اپنا لہو بہاکر رکھا تھا۔

ریاستی اداروں کو سب سے زیادہ تکلیف اُس وقت ہوتی ہے، جب اُن کے خفیہ ارادوں کو راجی فوج کے جانب سے ضرب لگتی ہے اور وہ ناکام ہو جاتے ہیں، یقیناً ایسی کامیاب ضربیں سامراجی ریاستوں کیلئے کینسر جیسے موذی مرض سے مرنے والے کسی شخص کے موت جیسا ہے، کیونکہ دنیا میں جہاں بھی استحصالی قوتوں نے اپنے طاقت کی نمائش کی ہے، سب سے پہلے اپنے خفیہ اداروں کو سراہا ہے اور ایٹمی قوت سے زیادہ اپنے انٹیلی جنس اداروں کو اپنا مضبوط دفاعی آلہ قرار دیا ہے۔

پاگلوں کا روپ دھار کر بلوچستان میں ایجنسیوں کیلئے کام سر انجام دینے والوں میں سے ایک کیپٹن قدیر (آبائی علاقہ زہری پنجکان اور موجودہ پتہ خضدار شہر لزو کٹھان) جیسا قوم دشمن جو بلوچ قوم کے نوجوانوں کے نسل کُشی میں برابر کا شریک تھا، جو کوئٹہ سے خضدار آتے وقت کسی روڈ حادثے میں مرگیا۔ جس کے نام پر ڈیفینس پاکستان کی جانب سے ایک ویڈیو اور ایک تحریر شائع ہوا تھا جس میں انہوں نے اس راج دشمن عناصر کے کام پر کچھ لکھا اور دکھایا گیا تھا، کہ اس نے فقیر بن کر سینکڑوں گھروں کے چراغوں کو بُجھانے میں ریاستی خفیہ اداروں کے لیئے آسانی پیدا کی تھی۔ رمضان کے مہینے میں آرمی کے ایک کاروائی کو کامیاب قرار دے کر اس بات کا اقرار کیا گیا تھا کہ اس کاروائی کو کامیاب بنانے میں کیپٹن قدیر کی مدد حاصل تھی۔ جس میں اس نے فقیر بن کر جاسوسی کی تھی اور اسی کاروائی میں سلمان بادینی نامی نوجوان کو داعش کا کمانڈر قرار دے کر جوابی کاروائی میں مار دیا گیا اور فورسز کی جانب سے ایک سہیل نامی کرنل بھی ہلاک ہوا تھا۔

ہزاروں بلوچ نوجوان ان ریاستی درویشوں کے ہاتھوں لاپتہ کیئے گئے ہیں، جو زندانوں میں طرح طرح کے اذیتیں سہہ رہے ہیں جن میں سیاسی رہنما، ڈاکٹر، انجینیئر، طالب علم، صحافی اور عام شہری بھی شامل ہیں اور ہزاروں کے تعداد میں بلوچ نوجوان ان فقیروں کے ہاتھوں شہید ہوئے ہیں۔

پاکستان جیسے سامراجی ریاست کے ایٹمی قوت سے سب واقف ہیں بقول وسعت اللہ خان کہ “یہ ایٹم بم نہیں بلکہ غریب کے در پہ باندھا ہوا ہاتھی ہے جس کے گنے تک تم سے پورا نہیں ہو پا رہا” بلکہ وسعت اللہ نے اس کو ایک سولہ سالہ دوشیزہ سے بھی تشبیہہ دی تھی۔

خیر یہ ایک الگ بحث ہے، آتے ہیں اپنے حقیقی موضوع کے جانب، جب بھی اس ریاست کا واویلا اور جھوٹا دکھاوا رہا ہے تو ایٹمی قوت کے بعد اس کی سارے تعریفیں اور خوشامدیں خفیہ اداروں کے حق میں جاتے ہیں، جن میں سابقہ چیف اسد دُرانی جیسے اشخاص ہیں جو اپنے سب سے بڑے دشمن انڈیا کے حساس ادارے را کے ساتھ مل بیٹھ کر کتاب لکھتے ہیں۔.

دنیا کا نمبر ون انٹیلی جنس ایجنسی بلوچستان جیسے خطے میں وہ کام سر انجام دیتا ہے، جسے میونسپلٹی جیسے اداروں کو سرانجام دینا ہوتا ہے، مگر یہاں نمبر ون خفیہ ادارے یہ کام سرانجام دیتے نظر آتا ہے. اگر خفیہ اداریں کچرے چننے کا ذمہ اپنے سر نہیں لیتے، یقیناً بلوچستان میں شہری گندگیوں سے لوگوں کو نجات ملتا اور شہریوں کیلئے صاف ستھرا اور صحت مند ماحول پیدا ہوجاتا، کچروں سے بھرا بوری اُٹھاکر پاگلوں جیسا روپ دھار کر محلوں اور گلیوں میں جاسوس بن کر پھرتے رہنا بھی اسی ادارے کے کارندوں کی کار گزاری ہے۔

مست توکلی اور شہہ مُرید کے دھرتی پر جھوٹا درویش بننے کی اداکاری کرکے بلوچ راج کی نسل کُشی اس مٹی کو ہرگز گوارا نہیں، یہاں کا باسی خانہ بدوشی کی زندگی بسر کرتا ہوا صوفیوں کے دھرتی سندھ اور اپنے مادر وطن بلوچستان میں ہر وقت طویل مسافت طے کرتا ہوا نظر آتا ہے، انہیں سچے درویشوں کا ہنر ان کے رومانوی داستانوں نے سکھایا ہے۔ انہیں تصوف سے خوب رغبت اور آشنائی حاصل ہے کیونکہ بھٹائی لطیف نے ان کی سرزمین پر پیر رکھ کر گذرا ہے، درویشوں کی دھرتی پر قدم رکھنے سے پہلے شہید درویش مری جیسے نڈر وطن کے سپوتوں کی تمہارے حواریوں پر بہادری سے گھات لگاکر کامیاب حملوں کو ضرور یاد کرنا، کیونکہ درویشوں کی کاروان کبھی رُکتا نہیں۔

گندگیوں سے بھری بوری میں کچرا چُننے کے آڑ میں کئی ماؤوں کے گود اجاڑنے والے یہ درندہ صفت انسان اور ریاستی سرپرستی میں اپنے مفاد و مراعات کے خاطر لوگوں کے گھروں سے روشنی چھیننے والے وحشیوں کو منطقی انجام تک پہنچانا موجودہ اور آنے والے نسلوں کا فرض ہے۔.