دی بلوچستان پوسٹ کا میر عبدالنبی بنگلزئی سے تفصیلی گفتگو
بزرگ قوم پرست رہنما میرعبدالنبی بنگلزئی گذشتہ پانچ دہائیوں سے بلوچ قومی تحریک آزادی سے جڑے ہوئے ہیں۔ آپ بلوچ تحریک میں ایک معتبر سیاسی و عسکری رہنما کے حیثیت سے اپنا نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ آپ نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے کیا، آپ بی ایس او عوامی کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔ ستر کی دہائی میں نیپ کے حکومت کے خاتمے اور بلوچ رہنماؤں کے گرفتاری کے بعد بلوچستان میں جب مزاحمت کا آغاز ہوا، تو آپ نے بھی پڑھائی ترک کرکے مزاحمت کا حصہ بن گئے اور وہیں سے آپ نے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا، جو آج تک جاری ہے۔
سنہ 2000 میں آپ گرفتار بھی ہوئے تھے اور نو سالوں تک آپ نے قید و بند کی زندگی گذارنے کے بعد 2009 میں رہائی پائی تھی۔ 80 کی دہائی میں آپ نے جلا وطنی کی بھی زندگی گذاری ہے۔ آپ بلوچ تحریک آزادی کے ایک ایسے کردار رہے ہیں، جنہوں نے بلوچ سیاست و مزاحمت کے نشیب و فراز بہت قریب سے دیکھے۔ بی ایس او کے انضمام و انتشار ہوں، ستر کی مزاحمت ہو، افغانستان جلاوطنی اور پھر واپسی ہو، موجودہ تحریکِ آزادی کا آغاز ہو، یو بی اے کا قیام ہو یا پھر بی ایل اے کا موجود بحران۔ اس پورے دورانیئے میں میرعبدالنبی ایک اہم کردار کے حیثیت سے ساتھ رہے ہیں۔
بلوچ سیاسی حلقوں میں میر عبدالنبی بنگلزئی کے بارے میں ایک عمومی رائے یہ پایا جاتا ہے کہ آپ اپنی رائے تول کر دیتے ہیں اور خاص طور پر میڈیا میں مسائل پر رائے زنی سے احتراز کرتے ہیں۔ آج دیکھا جاسکتا ہے کہ بلوچ تحریک میں بہت سے ایسے مسائل ہیں، جن پر بلوچ عوام خاص طور پر بلوچ سیاسی کارکنان میر عبدالنبی جیسے ایک غیرمتنازعہ اور معتبر شخصیت کا رائے سننا چاہتے ہیں۔ اسی امر کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے دی بلوچستان پوسٹ نے میر عبدالنبی بنگلزئی سے ایک نامعلوم مقام پر تفصیلی گفتگو کی اور پہلی بار آپ نے کسی انٹرویو میں ان تمام مسائل پر کھل کر تفصیلی طور پر اپنی رائے دی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: آپ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے چیئرمین رہ چکے ہیں، اسکے بعد آپ نے پر امن سیاسی جدوجہد کی راہ ترک کرکے مسلح جدوجہد کو اپنا کر، اس راہ سے جڑے ہوئے ہیں اور بلوچ نوجوانوں میں مزاحمت کی ایک علامت بن چکے ہیں، وہ کیا وجوہات تھیں جس کی وجہ سے ایک پر امن طلباء تنظیم کا سربراہ اپنا فلسفہ جدوجہد بدل کر گوریلا کمانڈر بن گیا؟
عبدالنبی بنگلزئی: ایک محکوم قوم کا فرد چاہے طالبعلم کے شکل میں ہویا سماج کے کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھتا ہو، وہ غلام ہی رہتا ہے۔ اسکا معاشرتی کردار اسکے حیثیت کو تبدیل نہیں کرتا۔ پر امن جدوجہد اس وقت تک گارکر رہ سکتا ہے، جب تک کہ اس کی گنجائش موجود ہو۔ بلوچستان کی صورتحال ایک مقبوضہ علاقے کی ہے، جو جبری طور پر طاقتور کے قبضے میں ہے۔ ایسے خطے میں پرامن جدوجہد کی گنجائش موجود نہیں رہتی۔ اسی وجہ سے جب میں طالب علم تھا، تب بھی غلام تھا، اب سماج کے جس طبقے سے تعلق رکھتا ہوں، میں پھر بھی ایک غلام ہی ہوں۔ اب گوریلا کمانڈر کہنا شاید اور بات ہوگی، ہاں جنگ کے لیئے گوریلا حکمت عملی اختیار کرنے کی بات کریں، تو جبر و تشدد کا جواب گر آپ انکی زبان میں نہیں دیں گے، تو پھر مقاصد بھی حاصل نہیں ہونگے۔ یہ ایک آفاقی فلسفہ ہے، یہ میرا کہنا نہیں ہے بلکہ پوری دنیا میں یہی تجربہ ہوا ہے۔ اسی لیئے ہم بھی اسی نتیجے پر پہنچے اور یہی راستہ اختیار کیا کہ اب جنگ کے بغیر کوئی چارہ نہیں بچا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: آپ ایک طویل عرصے سے بلوچ قومی تحریک میں شامل ہیں اور روز اول سے آپ کو ان کچھ مخصوص افراد میں شمار کیا جاتا رہا ہے، جن کی رائے اس تحریک کے سمت کے تعین میں فیصلہ کن اور اہمیت کا حامل رہا ہے۔ لہٰذا جہاں اس تحریک کے مثبت پہلووں کے ذکر میں آپکا نام آتا ہے، اسی طرح یقیناً جب بلوچ تحریک کے منفی پہلووں پر بات ہو تو آپ بری الذمہ نہیں ٹہر سکتے۔ آج بلوچ تحریک آزادی جس نہج پر ہے، کیا آپ اس سے مطمئن ہیں؟
عبدالنبی بنگلزئی: اگر میں تحریک کے منفی پہلووں پر بات کروں، تو میں انہیں ہرگز ناکامی نہیں کہہ سکتا، بلکہ تحریک مختلف ارتقائی مراحل سے گذرتی رہی ہے۔ جو کچھ ہمارے سماج میں موجود تھا اور جتنی اس میں گنجائش و استطاعت تھی، اس کے مطابق یہ تحریک آگے چلتی رہی ہے۔ آج کم یا زیادہ جس پیمانے کی بھی ہے لیکن بلوچ تحریک موجود ہے، ختم نہیں ہوئی ہے۔ اس لیئے میں اسے ناکام نہیں کہہ سکتا ہوں۔ ایک تو ہمارا سماج اب تک نیم قبائلی ہے، اس میں وہ خصلتیں نہیں تھیں کہ وہ ایک قومی جنگ لڑسکے، ہر قبیلہ دوسرے قبیلہ کے بارے میں تعصبات رکھتی ہے، سب ایک دوسرے سے دور ہیں۔ اسکے باوجود ایک قومی جنگ لڑی جارہی ہے۔
1958ء کے وقت جب بلوچستان میں مارشل لاء لگا اور نواب نوروز نے مزاحمت کی تو باقی سب بے خبر تھے۔ نواب نوروز خان کا ساتھ محض اسکے تعلقداروں اور قبیلے نے دیا، باقی پورا بلوچستان خاموش تھا۔ اس تحریک کے اثرات کی وجہ سے 1973ء کی جنگ شروع ہوئی، پھر وہی سلسلہ ہوتا ہوا آج کی تحریک کے شکل میں موجود ہے۔ آج اس میں طالعبلم سمیت خواتین بھی شامل ہیں۔ آج یہ روایتی جنگ سے زیادہ ایک قومی جنگ کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ تو میں اسے مجموعی صورت میں ناکام نہیں کہتا ہوں، ہم شاید دنیا کے پیمانے کے لحاظ سے اس جنگ کو دیکھ کر اس میں ناکامیاں ڈھوڈنڈتے ہیں۔ مگر ہم تحریک کے ارتقاء کو دیکھیں، تومیں سمجھتا ہوں، ہم ہرگز ناکام نہیں ہیں بلکہ کامیابی سے آگے جارہے ہیں۔
اگر اس دوران مجھے ذمہ دار ٹہرایا جاتا ہے، تو تحریک ابھی تک ناکام نہیں ہے، پھر میں بھی ناکام نہیں ہوں اور میرے علاوہ جو بھی اس عمل میں شریک رہے ہیں، وہ بھی ناکام نہیں ہیں۔ آج تحریک جس نہج پر پہنچی ہوئی ہے، اس سے میں پوری طرح مطمئن ہوں۔ آج تحریک نے جو شکل اختیار کی ہے اور جس ڈگر پر رواں ہے، میں اس سے مطمئن ہوں۔ یہ میرے توقعات سے بھی بڑھ کر ہے۔ آج میں دیکھ رہا ہوں کہ تحریک بلکل حقیقی شکل اختیار کررہی ہے، آج تحریک کو نوجوان اور فکری لوگ روایات سے نکال کر قومی قالب میں ڈھال رہے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: گزینی و بجارانی تقسیم، بابو شیرو کا کردار، یو بی اے کا قیام، بی ایل اے و یو بی اے جنگ ہو یا پھر بی ایل اے کا موجودہ بحران، ان تمام واقعات کے آپ چشم دید گواہ رہے ہیں، لیکن آپکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان تمام متنازعہ واقعات پر آپ نے چپ سادھ رکھی ہے اور رائے زنی نہیں کی ہے، حالانکہ آپکی رائے بلوچ نوجوانوں میں محترم ہے۔ اس مصلحت پسندی کی کیا وجہ ہے؟
عبدالنبی بنگلزئی: گزینی، بجارانی یا لوہارانی وغیرہ مری قبیلے کی شاخیں ہیں، یہ تقسیم اسکی ساخت ہے، کوئی نئی چیز نہیں ہے۔
جہاں تک بابو شیرو کی بات ہے، تو میں یہ ہرگز نہیں کہہ سکتا کہ بابو شیرو کا کردار کسی طور پر بھی کم تھا، اس تحریک میں انکا بہت زیادہ حصہ اور بڑا کردار رہا ہے۔ وہ ایک روایتی شخصیت کے مالک تھے، انکی جدوجہد بھی روایتی تھی۔ وہ ہمارے تاریخ کا حصہ ہیں۔ میں ان کے کردار کو مثبت سمجھتا ہوں۔
یو بی اے کے قیام کو تھوڑا تاریخی پس منظر میں دیکھا جائے، تو شروع میں نواب صاحب کے وقت بی ایل اے محض ایک نام تھا، جو درحقیقت نواب صاحب کا ذات اور اپنا قبائلی تنظیم تھا۔ میں بھی اسی میں شامل تھا۔ اس تنظیم کا جو بھی مرکز یا “ہڑکُڑ” تھا، وہ پورا دراصل نواب صاحب اور انکے اپنے خاندان اور بیٹوں پر مشتمل تھا۔ بعد میں انہوں نے حیربیار کو سامنے لایا اور حیربیار نے تنظیم سنبھالنا شروع کیا۔ کچھ وقت بعد حیربیار اور نواب صاحب کے بیچ اختلافات شروع ہوئے، جو بنیادی طور پر ان کا اپنا ذاتی مسئلہ تھا۔
وہ تاریخ کا ایک ارتقائی مرحلہ تھا، یہ ہونا ہی تھا لیکن جنگ رکتی نہیں ہے، خود اپنی راہیں تلاشتی اور سمت کاتعین کرتی رہتی ہے۔ جب حیربیار اور نواب صاحب کے درمیان بات نہیں بنی، تو نواب صاحب نے اپنا رُخ دوسری جانب کردیا۔ انہوں نے باقاعدہ علی الاعلان اپنا رخ دوسری طرف واضح نہیں کیا، مگر جہاں تک میری معلومات ہے یا نواب صاحب سے میری نزدیکی تھی تو ان کا کہنا تھا کہ میرے اور حیربیار کے درمیان مسائل ہیں۔ نواب صاحب نے مجھ سے کہا کہ ہم یہی کوشش کررہے ہیں کہ اس مسئلے کو اپنے طور پر حل کریں، اگر حل نہیں ہوپایا، تو پھرباقی بلوچوں کیساتھ بیٹھ کر اس مسئلے کو حل کرینگے۔ اس کے بعد حالات نے مجھے اجازت نہیں دی کہ میں جاکر نواب صاحب سے ملاقات کرسکوں اور بعد میں وہ وفات پاگئے اور اس طرح ہماری ملاقات نہیں ہوپائی کہ وہ مجھے یو بی اے کے حوالے سے کچھ بتاتے۔
مجھ پر یہ الزام کہ میں نے تمام مسائل پر چپ سادھ لی تھی، میں حقیقت نہیں ہے۔ ظاہرہے میری اس تحریک یا جدوجہد میں ایک حصہ داری رہی ہے، میں خاموش نہیں رہا ہوں۔ میری جتنی گنجائش رہی ہے، میں نے وہ ضرور کیا ہے۔ میں نے بی ایل اے و یوبی اے جنگ کی مخالفت کی ہے۔
میں اس وقت بی ایل اے کے کیمپ میں تھا، جب یو بی اے سے جنگ کی باتیں اور تیاریاں ہورہیں تھیں، وہاں بی ایل اے اور یوبی اے کے کیمپ نزدیک موجود تھے، جب جنگ کے لیئے لوگ آئے ہوئے تھے۔ میں نے باتیں سنیں، تو میں نے اس کی مخالفت کی اور اس وقت بھی یہی کہا کہ حیربیار اس جنگ سے خود کو بھی نقصان دیگا اور تحریک کو بھی نقصان دیگا۔ میں نے کہا تھا کہ یہ ایک بہت بڑا قومی نقصان ہوگا کہ ہم آپس میں لڑیں۔ حیربیار کا کہنا تھا کہ ہتھیار ہمارے ہیں، جن پر یوبی اے نے قبضہ کیا ہے، تو میں نے کہا کہ آپ لوگ جتنا بھی لڑیں پھر بھی کوئی ہتھیار ہاتھ نہیں لگے گا، کسے خبر ہتھیار کہاں چھپے رکھے ہیں؟ آپ لڑینگے لوگوں کو قتل کرینگے اور پھر ان کے خون میں پھنس کے رہ جائینگے۔ بالآخر میں ناراض ہوکر بی ایل اے کا کیمپ یہ کہہ کر چھوڑ کر چلا گیا کہ آپ لوگوں نے جب اس حد تک جانے کا فیصلہ کرلیا ہے، تو پھر میں آپ کے ساتھ مزید نہیں بیٹھ سکتا۔ اسکے بعد میں یو بی اے کے کیمپ چلا گیا اور ادھر بھی میری یہی کوشش رہی کہ مسئلے کو بیٹھ کر اپنے طریقے سے حل کیا جائے۔
مگر میں سمجھتا ہوں، کچھ ذاتی یا مخصوص مفادات تھے، جنہوں نے ہمیں ایک مختلف رائے رکھنے اور مسئلے حل کرنے کے لائق نہیں چھوڑا۔ یہ ایک تنظیمی مسئلہ تھا، جو کچھ حیربیار، مہران اور نواب صاحب کے درمیان ہوا، اسے متعلقہ دوستوں کے درمیان رکھا جاتا اور حل کیا جاتا۔ لیکن آپ ان راز کی باتوں میں باہر کے لوگوں کو لاتے ہو اور تنظیمی راز فراہم کرتے ہوتو پھر ایسا ہی ہوتا ہے۔ ان باتوں کو کوئی سمجھ نہیں پارہا تھا۔ بہرحال میں خاموش نہیں رہا ہوں۔
اب مصلحت پسندی کی بات کی جائے تو زندگی ایک مصلحت ہے، اگر مصلحت نہ ہو تو آپ زندگی گذار نہیں سکتے ہیں، آپ اکیلے نہیں رہ سکتے ہیں۔ آپ اس سماج میں زندگی گذارتے ہیں، تو آپ کو دوسروں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ آج میں آپ کے بجائے کسی اورغیر متعلقہ شخص کے سامنے یہ باتیں کروں تو عجیب بات ہوگی۔ میں چپ نہیں تھا، ہر عمل کا ایک مقام ہوتا ہے، ہر بات کے کہنے کی ایک جگہ اور وقت ہوتا ہے۔ یہ باتیں کسی غیر متعلقہ جگہ نہیں کرسکتا، جو کہنے والی جگہ ہے وہاں بتاسکتا ہوں، دی بلوچستان پوسٹ کہنے والی جگہ ہے تو میں بیان کررہا ہوں۔ اب کوئی پوچھ نہیں رہا ہو، تو پھر کسی کے ہاتھ سے پکڑ کر اسے بِٹھا کر میں زبردستی بتا نہیں سکتا۔
پہلی بات یہ کہ میری خاص مصلحت پسندی نہیں رہی ہے اور اگر رہی بھی ہے، تو وہ کبھی کسی ذاتی مقصد کے لیئے نہیں رہی ہے۔ اگر کبھی میں خاموش رہا ہوں بھی تو وہ تحریک اور جدوجہد کے مفاد کے لیئے اور اگر کوئی بات کی بھی ہے، تو وہ بھی تحریک کے مفاد میں کی ہے۔ اس کے علاوہ میرا کوئی ذاتی مفاد نہیں رہا ہے اور ناہی خاموشی سے مجھے کوئی ذاتی فائدہ پہنچا ہے۔
اسی طرح بی ایل اے کا موجودہ بحران، جہاں استاد اسلم، بشیرزیب، دوسرے دوستوں اور حیربیار کے بیچ مسئلہ پیدا ہوا تھا۔ اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے میں نے خود ثالثی کی کوشش کی ہے اور فریقین سے بات کی ہے۔ کسی مسئلے کو حل کرنے کے جو معلوم دستور اور طریقے تھے، وہ سب ہم نے بروئے کار لائے۔ میں نے بہت کوشش کی کہ بیٹھ کر ان مسائل کو حل کیا جائے۔
یہی دنیا کا دستور ہے کہ اگر استاد اسلم پر کوئی سوال یا الزام تھا، یا پھر اس کا کوئی قصور تھا تو انہیں جواب دینے کا موقع دیا جاتا۔ جس طرح سوال کرنا آپ کا حق ہے، اسی طرح جواب دینا اسلم کا حق تھا۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایسے رویے موجود نہیں، بس یہ کہا گیا تھا کہ ہر حال میں آپ ہمارا یہ فیصلہ قبول کرلیں۔ میری نظر میں یہ ایک ناجائز عمل تھا۔ بطور ثالث ہم نے اسی وقت متعلقہ افراد کو کہا تھا کہ آپ لوگ انتہائی غلط کررہے ہیں، اس طرح مسئلے حل نہیں ہوتے۔ آپ لوگوں کا یہ رویہ رہا تو پھر ہماری طرف سے بھی قصور وار آپ قرار پاتے ہو۔ ہم نے اسی وقت کہا تھا کہ استاد اسلم ایک دن میں نہیں بنا ہے، اس تحریک میں انکی طویل محنت اور حصہ رہا ہے، آپ ان سب چیزوں کو پسِ پشت ڈال کر کیسے اسے یوں اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں۔ ہم نے کہا کہ جو ہے آپ اسے اپنے دوستوں کے سامنے لے آئیں، لیکن اصل بات یہ تھی کہ بی ایل اے کے دوست اسلم سے مطمئن تھے اور اسلم اپنے دوستوں سے مطمئن تھا۔ تو پھر آپ کیوں ایسا عمل کرکے تنظیم کو نقصان دے رہے ہیں؟ بہرحال جو کچھ بھی ہوا غلط ہوا۔ میری ذاتی رائے ہے، جو کچھ ہوا حیربیار خود اس نقصان کا ذمہ دار ہے۔
استاد اسلم والوں نے اس مسئلے کو حل کرنے کی خاطر بطور ثالث ہمیں مکمل اختیار دے دیا تھا اور کہا کہ آپ لوگ بطور اختیار دار جو بھی فیصلہ کرینگے ہمارے لیئے قابل قبول ہوگا۔ اس کے بعد ہم نے حیربیار کیلئے پیغام بھیجا کہ ہمارے ساتھ بات کرنے کی زحمت کریں لیکن حیربیار نے ہم سے کوئی رابطہ نہیں کیا اور نا جواب دیا۔ ہم نے حیربیار کے نمائیندوں سے بات کی اور ثالثی کیلئے اختیار مانگا، انہوں نے کہا کہ ہم جواب دینگے لیکن آج تک کوئی جواب ہمیں موصول نہیں ہوا ہے۔ اب ظاہر سی بات ہے، استاد اسلم زندہ انسان ہے، وہ ہو یا بشیر زیب یا انکے دوسرے دوست، انہوں نے پوری زندگی جہد کی ہے، قربانیاں دی ہیں۔ اب وہ بیٹھ کر اپنے جہد کو ضائع نہیں ہونے دیتے نا دستبردار ہوسکتے ہیں۔ پھر انہوں نے بھی اپنے جہد کو جاری رکھتے ہوئے اپنے رستے پر چل پڑے۔ اپنے ہم خیال دوستوں کے ہمراہ جتنا ان سے ہوسکتا ہے، وہ خاموش ہونے کے بجائے کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں ان تمام مسائل کا ذمہ دار اختیارات کو اپنے ذات کے حد تک محدود رکھنے والا رویہ ہے، تحریک میں بیورکریٹک رویہ اپنانا درست نہیں ہے، یہاں کسی کی بھی شخصیت، اتنا مکمل نہیں کہ اس پر پورا اعتماد کرکے سب کچھ اسکے حوالے کردیا جائے۔
دی بلوچستان پوسٹ: آجکل بلوچ نوجوان آپ سمیت دوسرے بلوچ لیڈران جوگذشتہ طویل عرصے سے جدوجہد کے ہمراہ ہیں پر تواتر کے ساتھ ایک تنقیدی سوال اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ دنیا کے باقی تحریکوں میں لینن، ماوزے تنگ، کم ال سنگ، عبداللہ اوجلان وغیرہ جیسے انقلابی رہنماوں نے اپنے سماجی و سیاسی نظام پر تحقیق کیئے اور اپنے تجربات کے روشنی میں قوم کی رہنمائی کیلئے کتابیں اور مکالات لکھے، ان کے مکالات نے انقلابات میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن ستّر سالوں سے جاری بلوچ تحریک میں کسی بھی بلوچ رہنماءکی سیاسی و سماجی نظام پر کوئی ایک بھی سنجیدہ تحقیقی مکالہ یا کتاب سامنا نہیں آیا ہے، اس کی وجوہات کیا ہیں؟
عبدالنبی بنگلزئی: اسکی وجہ ہمارا سماجی ساخت ہے، ہمارا سماج کہاں کھڑا ہے اور کیسے ہے؟ اس میں کیا وجود رکھتا ہے اور کیا رشتے ہیں؟ آپ کے پیداواری قوتیں کس حد تک آگے ہیں؟ یہاں ایک غلام سماج ہے، لکھنا اور تخلیق کرنا خود ایک صلاحیت ہے۔ جتنی سماج میں صلاحیت ہوگی، اتنی ہی فرد کی صلاحیت ہوگی۔ ہمارے ہاں جس حد تک تحریک چلے ہیں، زیادہ تر سب روایتی رہے ہیں، ہمارے جہد کی رہنمائی ہمیشہ اسی سماج کے بالائی طبقے سے ہوئی ہے، اب وہ کیا تھے؟ ظاہر ہے ان کے اپنے مفادات اور صلاحیتیں تھیں۔ اب وہاں میرٹ کیا ہے؟ روایتی طریقے سے بس میرا سردار ہے، تو قبول ہے۔ سردار کی صلاحیتیں کیا ہیں؟ کچھ نہیں بس 20 گزکا دستارہے۔ کسی کے سرپر تاج رکھنے سے وہ عاقل و دانا تونہیں بن جاتا ہے۔ اب لکھنا ایک ایسا عمل ہے کہ جس میں انسان اندر سے جیسے ہوتا ہے، انہی چیزوں کو بیان کرسکتا ہے۔
ہمارا سماج اور زندگی کا گذربسر پسماندہ ہے، جتنے بھی اس میں خصوصیات تھیں، ان سے ہم جتنا فائدہ اٹھا سکتے تھے، اٹھانے کی کوشش کرتے تھے۔ مگر وقت کے ساتھ ان سب چیزوں میں تبدیلی آتی رہی ہے۔ انہیں سامنے رکھنے اور لکھنے کے لیئے شاید روایات اور اقدار نے آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی کیونکہ پھر قومی مفاد کی بات کرنی پڑتی تھی، جو روایات کے برخلاف تھے۔ اندر سے لوگ کچھ اور تھے اور باہر سے کچھ اور کنفیوز ہوکر کتاب لکھنا شاید مشکل ہے۔
آج نوجوان لکھ رہے ہیں، تحقیق کررہے ہیں۔ اب ان پر منحصر ہے کہ سماج کو کیسے تقسیم کرتے ہیں، ہمارا کیسا سماج ہے، اسے کس طرح جوڑنے کی ضرورت ہے، کیا مفادات ہیں، ہمارا ایک قبائلی اور نیم قبائلی سماج ہے۔ سردار کاکردار کیا ہے؟ کیا دوسرے قبائل آپ کی بات قبول کرتے ہیں؟ ہمارے سماج میں قبائلیت ختم نہیں ہوئی ہے اور مکمل موجود بھی نہیں ہے۔ سسٹم کے تحت آج کچھ نہیں بچا ہے۔ سردار بک چکا ہے، سردار سرکار کے ساتھ ہیں۔ لوگ ایک سوچ رکھتے ہیں، مگر اپنے تمام رشتے توڑ بھی نہیں سکتے کیونکہ صدیوں کی رشتہ داریاں ہیں، ہزاروں سالوں کی وابستگی رہی ہے۔ جنہیں وہ چھوڑ نہیں سکتے۔ سردار جب سرکار کی طرف جاتے ہیں، تو وہ بھی ادھر چلے جاتے ہیں۔ لوگوں کے مسائل ہوتے ہیں، جنہیں وہ سردار کے پاس لے جاتے ہیں۔ کوئی اور اعتماد ابھی تک بحال نہیں ہوپایا ہے۔ شاید مستقبل میں ایک اعتماد بن جائے، جو تنظیم، ادارہ یا فلاح کی صورت میں سردار کی جگہ لیکر بدلے میں کچھ فراہم کرے۔ پھر لوگ ہماری طرف آئیں اوران کا اعتماد بحال ہو۔
دی بلوچستان پوسٹ: جب موجودہ تحریک کا آغاز ہوا، تو اس وقت سے یہ بات کہی جارہی تھی کہ اس تحریک کی بنیاد پرانے غلطیوں سے سیکھ کر رکھی گئی ہے، لیکن ہم ایک بار پھر دیکھ رہے ہیں کہ بلوچ ارتکاز کے بجائے دوبارہ ستر کے دہائی کی طرح انتشار کی طرف ہی جارہی ہے، اسکی وجہ کیا ہے؟
عبدالنبی بنگلزئی: اگر حقائق کے بنیاد پر تجزیہ کرکے دیکھیں، تہتر کی دہائی کی جنگ بنیادی طور پر آزادی کیلئے شروع نہیں ہوئی تھی بلکہ وہاں شروعاتی مقصد تو صوبائی حکومت کی بحالی تھی۔ ستر کے انتخابات کے بعد نیشنل عوامی پارٹی کے حکومت کا بننا اور پھر آٹھ مہینے بعد صوبائی حکومت کو ختم کرنے، لیڈر شپ کو قید کرنے کے خلاف وہ ایک مزاحمت تھی۔ وہ تحریک ایسی شکل میں نہیں تھی جیسا کہ موجودہ تحریک ہے۔ تو اب ہم کیا کہہ سکتے ہیں کہ غلطیاں کیا تھیں؟ بعد میں اب اس موجودہ تحریک نے جو شکل اختیار کی وہ اسی تحریک کا ارتقائی شکل ہے، میں سمجھتا ہوں یہ اس تحریک کی کامیابی ہے۔
وہ ایک باقاعدہ آزادی کی تحریک نہیں تھی، جو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت شروع کی گئی ہوکہ ہم اس کی غلطیوں پر بات کریں۔ اس وقت تحریک میں بی ایس او اسی لیئے شامل ہوا کہ ایک مزاحمت چل رہی تھی، ایک جنگ چل رہی تھی، ہم نے فیصلہ کیا کہ ہمیں اس میں شامل ہونا ہے۔ اس جنگ کو ایک سمت دینا ہے، اسکی راہیں متعین کرنی ہیں۔ ہمیں اس کی مدد کرنی ہے تاکہ یہ ترقی یافتہ شکل اختیار کرکے آگے جائے اور یہ جنگ آگے چل کرآزادی کی تحریک میں تبدیل ہوجائے۔ میں خود اسی سوچ اور خیال کے تحت تحریک میں شامل ہوا تھا۔
مجھے خیر جان کی ایک بات یاد ہے کہ جب میں پڑھ رہا تھا، تب میں اس کے پاس گیا کہ اس کا ساتھ دوں، وہ بھی بی ایس او کا چیئرمین رہا ہے اور ہمارا سوچ و فکر ایک ہے۔ میں نے خیر جان سے کہا کہ صوبائی حکومت کو ختم کرنے کے خلاف یہ جنگ ہورہی ہے، میں بھی تمہارے کیمپ آنا چاہتا ہوں۔ اس نے جواب دیا کہ میں میر غوث بخش کا پابند ہوں۔ ہماری یہ جہد صوبائی حکومت کی بحالی کے لیئے ہے لیکن تم سوچتے ہو کہ یہ آزادی کی جنگ ہے، مگر یہ آزادی کی جنگ نہیں ہے۔ جس دن میرغوث بخش نے کہا بس کرو تو میں بس کردونگا۔ اس وجہ سے ہماری بات نہیں بنی اور میں اسکی ہمراہ داری نہیں کرسکا۔ پھر میں سفر خان کے کیمپ چلا گیا، وہاں شرط و شرائط نہیں تھے، وہ جھالاوان سے تعلق رکھتا تھا اور ایک روایتی بندہ تھا۔ وہ نوروز خان کا ہم فکر تھا اور سیدھی سادھی آزادی چاہتا تھا۔ بعد میں ہوا بھی یہی کہ سفر خاں شہید ہوگیا لیکن ہتھیار نہیں پھینکے جبکہ خیرجان نے آخر کار جاکر سرنڈر کیا۔ بعد میں پھر اسکی فوج کے ساتھ رشتہ داریاں ہوگئیں۔ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ سرکار کے لئے باقاعدہ مخبری کا کام بھی کرنے لگا۔
بہرحال وہ تحریک کسی حکمت عملی یا منصوبہ بندی کے تحت شروع نہیں ہوا بلکہ وہ ریاستی حملے کیخلاف مزاحمت تھی۔ یہ امید تھی، فکر تھی کہ ہم اس تحریک کی نشونما کرینگے، ہمیں جتنی کامیابی ملی یا ناکام وہ دکھائی دے رہی ہے۔ ستر کی دہائی کی وہی نیم پختہ جنگ ترقی پاکر موجودہ تحریک کی شکل اختیار کرگیا۔ یہ ارتقاءہے، ظاہر سی بات ہے کہ کوئی چیز جتنی پختہ ہوگی، اس کی رفتار اسی نسبت سے رہے گی۔ اس تحریک کی رفتار کم تھی اور آج دنیا تیز ہوگئی ہے، ہر دن ایک نئی چیز سامنے آرہی ہے۔
آج تحریک زیادہ تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ اسے تیزی کے ساتھ بڑھانے کے لیئے لوگ موجود ہیں، ان کے پاس لکھنے، کہنے کی صلاحیت ہے، وہ تاریخ سے واقف ہیں۔ اگر آج براہمداغ تاریخ کے خلاف کوئی ایک ٹویٹ کرتا ہے، تو ہر طرف سے اس کے خلاف بات کی جاتی ہیں کہ آپ غلط بیانی کررہے ہو۔ بہرحال مجموعی طور پر مجھے ایسی کوئی مایوسی کی بات نظر نہیں آتی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: بلوچ تحریک میں ہمیشہ سے ایک تقسیم نظر آتی ہے، اسی تقسیم در تقسیم کا آپ یونائیٹڈ بلوچ آرمی کی صورت میں خود حصہ رہ چکے ہیں، آپ نے بی ایل اے کے قیام اور پھر اس تقسیم کو اپنے آنکھوں کے سامنے ہوتے دیکھا، آپکے خیال میں اسکی بنیادی اور حقیقی وجہ کیا تھی؟
عبدالنبی بنگلزئی: بی ایل اے کی تقسیم اور یوبی اے کے بننے کی بنیادی وجہ نواب خیربخش مری اور حیربیارمری کے درمیان اختلافات تھے۔ جیل سے رہائی کے بعد نواب صاحب سے جب میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ میرے اور حیربیار کے درمیان مسائل ہیں۔ غالباً 2010میں حیربیار نے جیل سے رہائی کے بعد قیادت کے حوالے سے ایک بیان دیا تھا۔ حیربیار نے کرپشن کے الزامات لگائے تھے، ایک یہ بات نواب صاحب نے مجھے بتایا کہ اختلافات کی بنیاد ہے اوردوسری بات انہوں نے کہا کہ انکے اور حیربیار کے بیچ نظریاتی اختلافات بھی ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا کہ نواب صاحب کا کہنا تھا کہ وہ ان مسائل کو اپنے طور حل کرلینگے، اگر مسائل حل نہیں ہوئے، تو دوسرے بلوچوں کو بٹھا کر، مسائل کو انکے سامنے رکھینگے، لیکن پھر یو بی اے بن گیا۔
جہاں تک یونائیٹڈ بلوچ آرمی سے تعلق رکھنے کی بات ہے، تو یو بی اے کیساتھ یا اسکے بننے میں میرا کوئی حصہ داری نہیں ہے۔ اسی طرح میں پہلے بی ایل اے کے کیمپ میں تھا لیکن اس کا ممبر نہیں تھا، میری ساری وفاداریاں نواب صاحب کے ساتھ تھیں۔ بی ایل اے نواب صاحب کا تھا تو اس لحاظ سے میں ممبر بھی کہلایا جاسکتا تھا۔ میں نواب صاحب کو جانتا تھا اور اعتماد صرف اسی پر کرتا تھا لیکن حیربیار کو میں نہیں جانتا کہ آپ سیاسی صورت میں کیا ہو۔ آپ نواب صاحب کے بیٹے ہو لیکن میرے اور آپ کے درمیان وہ رشتے کس حد تک ہیں؟ ہم ایک دوسرے سے کس حد تک مطمئن ہوسکتے ہیں؟ کن چیزوں پر ہمارے درمیان اختلاف یا اتفاق ہوسکتا ہے؟
شروعات میں نواب صاحب نے جب حیربیار کو سامنے لایا، تو ہم نے اس جہد کو آگے لیجانے کی خاطر حیربیار کی مدد کی، لیکن جب بی ایل اے نے یوبی اے سے لڑنے کا فیصلہ کرلیا، تو میں نے ان سے اختلاف رکھ کر انکا کیمپ چھوڑ دیا اور یو بی اے کے کیمپ چلا گیا۔ تو وہاں جانا اور ان کے ساتھ بیٹھنا بھی میرا یو بی اے کا ممبر بننا نہیں تھا۔ میں یوبی اے کے کسی بھی صلاح و مشورے میں شامل نہیں رہا ہوں، میں یوبی اے کا باقاعدہ ممبر نہیں رہا ہوں۔ اب اگر مجھے کوئی یو بی اے میں شمار کررہا تھا، تو ظاہر ہے میں اس کیمپ میں بیٹھا تھا تو شاید یہ تاثر جارہا تھا۔
بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ میرا تعلق یوبی اے سے تھا اور اسکے قیام کی وجہ مجھ سے پوچھتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ مجھے یو بی اے کے بننے تک کے بارے میں کوئی بھی علم نہیں تھا۔ نا ہی نواب صاحب نے مجھ سے اس بارے میں کوئی بات کی ہے۔ میں یو بی اے کا باقاعدہ یا رسمی ممبر نہیں رہا ہوں، ہاں میں ان کے کیمپ میں تھا لیکن اسی طرح میں دوسرے تنظیموں کے بھی کیمپ میں رہا ہوں، میں بی آرے کے بھی کیمپ میں اسی طرح رہا ہوں۔ باقی نہ وہ میرے سامنے جوابدہ رہے ہیں اور نہ میں ان کے سامنے جوابدہ رہا ہوں۔ ظاہر سی بات ہے، میں سرکار کے پاس تو نہیں جاسکتا تھا۔ تو یہ صورتحال رہی ہے۔
میری نظر میں بی ایل اے کے اس تقسیم در تقسیم کی بنیادی اور حقیقی وجہ سماجی ارتقاء ہے، نئے اور پرانے کی جنگ ہے، ایک خیال نیا ہے تو دوسرا پرانا و روایتی ہے۔ نیا خیال ادارہ سازی، تنظیم کاری، ڈسپلن جیسی چیزیں ہیں جبکہ دوسری طرف روایتی سوچ ہے یعنی اگر کوئی سردار ہے تو یہی سمجھتا کہ میری بات حرفِ آخر ہے۔ تنظیم کے اندر ایک بیوروکریٹک یا جاگیردانہ رویہ ہے، یعنی یہ کہ میں بڑا ہوں، میں دولت مند ہوں، یہ میری میراث ہے، میں جائیداد کا مالک ہوں تو بات بھی میری صحیح ہے، اس وجہ سے ان دو خیالات کا ایڈجسٹ ہونا مشکل ہوجاتا ہے۔
مثال کے طور پر اب میرا سردار سرکار کے پاس جائے تو میں اس کے ساتھ ایڈجسٹ کرسکوں گا؟ بہت مشکل ہے، حالانکہ میں بھی ایک قبیلے سے تعلق رکھتا ہوں، میرے سردار نے حد درجہ کوشش کی، کہا میرے رستے سے ہٹ جاﺅ اور رکاوٹ نہیں بنو۔ میرا جواب تھا کہ میں جانوں میرا کام جانے، میں بھی ایک بلوچ ہوں۔ لیکن میرے اپنے خیالات رہے ہیں اور سردار کے اپنے، سردار سرکارکی پالیسی کو اپنائے ہوئے تھا اور ہم بلوچ کے پالیسی کوآگے لیجارہے ہیں۔ تو میں ان چیزوں کی حقیقی وجہ نئے اورپرانے سوچ کے تضاد و ٹکراو کو کہوں گا۔ اب بی ایل اے کے حالیہ بحران میں بھی کچھ اسی طرح کے روایتی غیر رسمی باتیں سنائی دیتی تھیں، جہاں لوگوں سے کہتے تھے کہ ہم مری ہیں، اسلم کا کیا کروگے، ہم مری متحد ہوجائیں۔ یعنی پرانی روایتی سوچ کو اپنے مفادات کے لیئے استعمال کرنا۔
دی بلوچستان پوسٹ: جب تک بابا خیربخش مری حیات تھے، تو سب آپ کو اسی سیاسی رفاقت یا دوستی کے بنیاد پر یو بی اے میں ہی تصور کرتے رہے، کیا وہی رفاقت اور دوستی آپ مہران مری کے ساتھ بھی دیکھتے ہیں؟
عبدالنبی بنگلزئی: اگر کوئی مجھے نواب خیر بخش کی دوستی کی وجہ سے یو بی اے میں سمجھتا رہا ہے تو یہ غلط ہے، ایسا نہیں تھا۔ باقی جو دوستی اور سیاسی رفاقت میری نواب صاحب کیساتھ رہی ہے، مہران مری کے ساتھ میری ایسی کوئی سیاسی رفاقت نہیں ہے۔ میں جب انکے تنظیم کے کیمپ میں تھا، تو ان سے ایک دو بار میری صحت کی خرابی اور علاج کے بابت بات ہوئی تھی۔ اس کے بعد بالکل بات نہیں ہوئی ہے۔ ہاں، میری خواہش رہی ہے کہ میں مہران سے ملاقات کرسکوں اور ان سے تفصیلی تنظیم کے بابت پوچھ سکوں کہ یہ کیا ہے؟ جو لوگ تنظیم میں ہیں، وہ میرے دوست ہیں، میں انکا کمانڈر رہا ہوں، آج وہ قبائلی بنیاد پر آپ کیساتھ ضرور ہیں، لیکن میں جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کی فکر اور سوچ کیا ہے؟ کیا دلیل یہ ہے کہ آپ نواب صاحب کے بیٹے ہو؟ نواب صاحب کا بیٹا تو جنگریز اور گزین بھی ہیں۔ یوں بیٹے ہونے کے ناطے آپ قابل قبول نہیں ہوسکتے، آپ کا کردار اور عمل کیا ہے؟ ان چیزوں پر میری بات ان سے ہوسکتی ہے، گر میں مطمئن ہوجاؤں پھر سنگتی اسی بنیاد پر شاید کرسکوں۔
باقی عمومی بات یہ ہے کہ یہاں ایک جنگی حالت ہے، ون پوائنٹ ایجنڈا بلوچستان کی آزادی کی جنگ ہے، بس اس نکتے پر سب دوست ہیں۔ اس نکتے پر مہران مری میرے لیئے بالکل قابل قدر ہے۔ میں یو بی اے، بی ایل اے یا بی آر اے سب کے کیمپوں میں گیا ہوں، بلکہ میں شعوری حوالے سے ان کیمپوں میں گیا ہوں، تاکہ ایک یکجہتی بنے اور یہ دوریاں نا ہوں، تاکہ ایسی کوئی تقسیم نہ ہو کہ ہم روایتی طور پر ناراض رہیں۔ ہمارے دشمن مارے جائیں، ہم ایک دوسرے کی کمک کریں، تو میں اس لئے سب کے ساتھ تھا۔
کسی بھی رسمی، رواجی یا باقاعدہ دوستی کیلئے ضروری تھا کہ مہران سے بات ہو اور وہ ذمہ دار ہوں، کیونکہ وہ لیڈر ہے اور باقی کوئی تحریر آئین یا منشور موجود نہیں ہے، جسے کوئی دیکھ کر اس پر اتفاق کرکے ساتھ ہوتا، اس لیئے لیڈر پر اعتماد قائم کرکےکچھ ہوسکتا تھا، لیکن وہ نہیں ہو پایا۔ لیکن بعد میں انہوں نے براہمداغ بگٹی کے 27مارچ بابت موقف کی بغیر سوچے سمجھے تائید کردی حالانکہ انہوں نے خود پہلے جینیوا میں بات کی تھی اور 27مارچ کو بلیک ڈے قرار دیا تھا۔ اب انہوں نے بھی خود کو اس تاریخی انحراف میں شامل کردیا، تاریخی طے شدہ چیزوں کو متنازع بنانے کی کوشش کی۔ اس کے بعد میرا ان سے غیر رسمی دوستی بھی ختم ہوگئی۔ مستقبل کا پتہ نہیں، اب آنے والا وقت اپنا فیصلہ خود کریگا، اب میرا ان سے ایسی کوئی رفاقت یا دوستی نہیں رہی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: یونائیٹڈ بلوچ آرمی جن بھی وجوہات کے بنا پر قائم ہوا، انکی پوری وضاحت ابھی تک نہیں ہوسکی ہے، اس بابت قوم کے سامنے دو مختلف آراء پیش کی گئیں، لیکن ایک بات اب واضح نظر آرہی ہے کہ بی ایل اے کی وہ تقسیم ان مسائل کا حل نہیں تھا، کیونکہ آج ایک بار پھر ہمیں بی ایل اے دوبارہ اسی طرح کے ہی مسائل سے دوچار نظر آرہا ہے۔ اس کی آخر وجہ کیا ہے کہ بی ایل اے بار بار ان مسائل کا شکار ہورہی ہے؟
عبدالنبی بنگلزئی: میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ ان سب مسائل کے پیچھے سماجی و سیاسی ارتقاء ہے، یہ سب ہونا ہے۔ ظاہر ہے جب نئے خیالات آتے ہیں اور قبول نہیں کیئے جاتے ہیں اور روایتی پن کے ساتھ رہا جاتا ہے، تو پھر پرانے روایتی چیزوں اور نئے خیالات کا ایک ساتھ ہونا مشکل ہوجاتا ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پرانے کو نئے کےلیئے جگہ چھوڑنا پڑتا ہے۔ اگر اس کے لیئے کوئی گنجائش نہیں ہوگی، تو وہ ٹوٹ جائے گا۔ پرانا اگر نئے چیزوں کو قبول نہیں کریگا، تو نتیجہ ٹوٹنے کی شکل اختیار کریگا۔ یہ ایک اٹل تاریخی حقیقت ہے اور میں سمجھتا ہوں اس تقسیم کی وجہ یہی ہے۔
ان وجوہات میں سے ایک بی ایل اے میں اداروں کا نہ ہونا ہے، اگر کوئی ادارہ تھا بھی تو وہ روایتی طور پر تھا، جو نئے تقاضوں پر پورا نہیں اترپارہا تھا۔ حالیہ بحران کی جڑیں بھی اسی بنیادی مسئلے میں پیوست تھیں۔ حیربیار آگے جانے کو تیار نہیں تھا۔ دوسری جانب یہ لوگ ادارہ جاتی سطح پر دیکھنا چاہتے تھے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں، کس سمت جارہے ہیں اور اپنا مقام دیکھنا چاہ رہے تھے۔ لیکن حیربیار یہ قبول نہیں کررہا تھا اور روایتی طریقے سے سب کچھ اپنے ہاتھوں میں چاہ رہا تھا، جس کا نتیجہ بد اعتمادی و ٹوٹنے تک پہنچا۔
دی بلوچستان پوسٹ: بلوچ تحریک میں نمو پاتی ایک سوچ موجودہ تمام مسائل کا ذمہ دار اداروں کی عدم موجودگی کو گردانتی اور ذمہ دار ٹہراتی ہے، آپ اس بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟
عبدالنبی بنگلزئی: پہلے جب روایتاً کہا جاتا تھا۔ اٹھو! بس جنگ ہے، تو جنگ شروع ہوجاتی تھی۔ مگر آج حساب کتاب، تنظیم، ڈسپلن، حق و حقوق اور فرائض یہ سب چیزیں شامل ہیں اور انکا مطالبہ ہوتا ہے، ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ یہ کسی بھی ادارے کی ضروریات ہوتی ہیں۔ آج جو کوئی بھی جدوجہد کررہا ہے، چاہتا ہے کہ اس کا مقام واضح ہو۔ سب جاننا چاہتے ہیں کہ انکی کیا عزت و شرف ہے، وہ کیا کررہے ہیں، یہاں میرا مقام کیا ہے۔ یہ انسانی فطرت بھی ہے۔
اب ادارے نہیں ہیں تو انتشار ہوگا۔ ادارہ خود تاریخ کی ایک واقعاتی چیز ہے۔ یہ بھی سوال اٹھتا ہے کہ کون سا ادارہ؟ انقلابی ادارہ یا پہلے کا روایتی ادارہ؟ پہلے روایتی ادارے تھے۔ مری ہو، بس آجاﺅ، گر کوئی اور بلوچ آیا توکوئی اعتراض نہیں ہے۔ اب باقی بلوچ اس میں کیسے جگہ پائیں گے؟ کس وقت تک رہیگا، کتنے لوگ اسے مانیں گے؟ یہ جواب طلب رہے۔ پہلے بی آر اے میں کتنے لوگ تھے بعد میں کتنے رہ گئے؟ یا بی ایل اے میں کتنے بلوچ تھے اور اب کتنے بچے ہیں؟ اب ایسے اداروں میں وہ چیز نہیں بن سکتی تھی۔ اب ان حالات میں ضروری ہے کہ اداروں کی بات کی جائے۔
آج مجھے بی ایل ایف اور بی این ایم کی شکل میں ادارے موجود نظر آتے ہیں، اور میں دیکھ رہا ہوں بی ایل اے جیئند والے ادارے کی شکل اختیار کررہے ہیں، کیونکہ وہ اپنے تجربات سے دیکھ اور سیکھ چکے ہیں اور اب جانتے ہیں کہ وہ اب اپنے دوستوں کو حقیقی اداروں کے بغیر ساتھ روک نہیں پائیں گے۔ ادارہ ہوگا تو سب کو معلوم ہوگا کہ میری جگہ کونسی ہے، مجھے کیا کرناہے، میرے فرائض اور حقوق کیا ہیں۔ ادارے میں وہ خود کو محفوظ سمجھیں گے۔ اگر یہ چیزیں نہیں ہونگی، تو میرے خیال میں لحاظ داری میں دیر تک چلا نہیں جا سکتا ہے۔
اب ہمیں دیکھنا ہے کہ ہمیں کیسے اداروں کی ضرورت ہے، ہمارے فیصلے کرنے کے طریقے کیا ہیں؟ مثال کے طور پر آج کوئی کہتا ہے کہ پنجابی کو مارنا ہے۔ پھر سوال اٹھتا ہے، کون سے پنجابی کو مارنا ہے؟ پنجابی قوم کو ماروگے؟ کیا ہم پنجابی قوم کے دشمن ہیں یا اس پنجابی کردار کے جس نے ہمیں غلام بنایا ہے؟ پنجابی کی شکل سے نہیں بلکہ اس کردار سے نفرت ہونی چاہیئے، جس کی وجہ سے ہم غلام ہیں، ورنہ وہ بھی ایک انسان ہے۔ اس کا جو کردار میرے قوم کو نقصان دے گا، اس سے اختلاف ہے۔ آج ہمارا اپنا کوئی قریبی ہو یا بھائی بھی ہو، اگر اسکا کردار غلط ہے، تو وہ بھی دشمن تصور کیا جائے گا۔ ہمارا پنجابی کے ساتھ جنگ نہیں بلکہ ہم تو اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں، ہم اپنی تاریخ آزاد کرانا چاہتے ہیں۔
اب ادارے کا تصور یہی ہے کہ وہ تمام بین الاقوامی مسائل کو سمجھ کر، اپنے لیئے راہیں نکال پائے، ادارہ حقوق و فرائض کو بھی اسی طرح طے کرتا ہے۔ دوسرے اقوام کے ساتھ تعلقات کی نوعیت بھی طے کرتا ہے وغیرہ۔ اب ہم میں سے کون ادارے کیلئے کوالیفائی کرتا ہے؟ کیا حیربیار ادارے کےلیئے کوالیفائی کرسکتا ہے؟ جو ناحق بی ایل اے کو دو بار تقسیم کرتا ہے، کسی بھی مسئلے پر بیٹھنے اور بات چیت کرنے تک کےلیئے تیار نہیں ہے، کہتا ہے کہ جب میں کہتا ہوں اسلم قصوروار ہے پھر بس اسلم قصور وار ہے۔ ایسے کیسے بغیر ثابت کیئے کوئی قصور وار ہے؟ تو کیا ایسی لیڈر شپ اداروں کو آگے لے جاسکتی ہے؟
دی بلوچستان پوسٹ: یہ ایک حقیقت ہے کہ بلوچ آزاد پسند مضبوط ادارے تشکیل نہیں دے سکے ہیں، اس امر کا ذمہ دار بزرگ آزادی پسند رہنما واحد قمبر اپنے حالیہ آرٹیکل میں آپکو بھی ٹہراتے ہوئے کہتا ہے کہ آپ نے ”اداروں کے بجائے قبائلیت کی تائید کی ہے۔” اس میں کتنی صداقت ہے؟ اور اسکی کیا وجہ ہے؟
عبدالنبی بنگلزئی: استاد واحد قمبر کی اس بات کی تردید کروں بھی شاید مناسب نا لگوں، لیکن تصدیق کرنا بھی میرے لیئے گراں ہے۔ پہلے ایک بات میں واضح کردوں کہ آج ہماری تحریک جہاں پہنچی ہے، اس میں ہم قبائل کے کردار کو ہرگز نظر انداز نہیں کرسکتے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ہماری تحریکیں قبائل کی مرہونِ منت رہی ہیں۔ نواب نوروز، نواب خیربخش، شیر محمد مری یہ سب قبائلی لوگ تھے۔ میں اور واحد جس جہد میں شامل ہوئے، وہ قبائل کی شروع کی گئی تحریک تھی۔ میں نے اس وقت پاکستانی فوج کے مقابلے میں اپنا پناہ انہی قبائل میں پایا۔ اب باقی سماج کے برعکس، اس وقت یہ قبائل ایک کامیاب مزاحمت کررہے تھے، پھر میں کس بنیاد پر انکی مخالفت کرتا؟ یہ راتوں رات بدلنے والا نظام نہیں تھا، بلکہ یہ ارتقائی مراحل سے گذر کر ہی قومی یا جدیدیت کے قالب میں ڈھلتا۔ میں نے اپنی پوری زندگی وقف کردی کہ قبائلیت اور روایت پرستی کو جدید اداروں کی شکل میں بدلوں۔ بہرحال یہ میرے بس کی بات نہیں تھی کہ میں قبائلیت کو روکوں، یہ اس وقت کی ایک معروضی حقیقت تھی، ایک ضرورت تھی۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ہم قبائل مخالف نہیں ہیں، ہم نوآباد کار مخالف ہیں، جس نے ہم پر قبضہ کیا۔
میں واحد قمبر کا احترام کرتا ہوں، بس اتنا کہوں گا کہ اس وقت قبائل کی صورت میں ایک مزاحمت کامیابی سے شروع ہوکر چل رہی تھی اور کامیابی سے چلتے ایک قوت کو راتوں رات توڑنے کے میں حق میں نہیں تھا۔ ارتقائی مراحل سے گذر کر اسے خود اداروں کی طرف جانا ہی تھا، ہر عمل کا ایک فطری وقت ہوتا ہے۔
کچھ اور باتوں کا میں یہاں اضافہ کرنا چاہوں گا کہ سنہ 1980کے بعد ہم نوجوانوں کی جتنی شرکت بی ایس او عوامی کی شکل میں تھی، جن کا میں چیئرمین تھا اور اس وقت پہاڑوں میں موجود تھا اور فدا احمد سیکریٹری جنرل تھے۔ ہم نے یہی حکمت عملی اپنائی کہ یہ تحریک جنگ کے بغیر اب آگے نہیں چل سکتی اور آزادی حاصل نہیں کرسکتی۔ ظاہر ہے بلوچ عوام اور قبائل یہی تھے، جو مزاحمت کررہے تھے۔ لہٰذا ہم نے فیصلہ کیا کہ ان کے ساتھ ملکر انہیں آہستہ آہستہ “ڈویلپ” کرکے آگے لیجائینگے۔
ہمارے بہت سے دوستوں کا اس وقت کہنا تھا کہ اب ادارے کی ضرورت ہے، ورنہ ہم صرف قبائلی بنیادوں پر آگے نہیں جاسکتے ہیں۔ بہت سے لوگ آئے، ایک کوشش تھی کہ ہم تنظیم کاری کریں۔ ہمارے علاوہ باقی لوگوں میں رازق اور جالب کے شکل میں پہلے سے جنگ میں شامل تھے۔ میں اور شہید فدا احمد افغانستان گئے، غالباً ایک دو سال وہاں جلا وطنی کی زندگی گذاری۔ نواب صاحب سے کابل میں ملے، پھر ہلمند آکر ہم نے ایک ڈرافٹ ادارے کے بابت لکھ کر نواب صاحب کے خدمت میں پیش کیا، لیکن نواب صاحب اس سے متفق نہیں ہوئے۔ انہوں نے ہمیں جواب دیا کہ یہاں آپ لوگ جو تنظیم مانگ رہے ہیں، وہ ممکن نہیں۔ یہاں ایک پہلو بلکل نیچے ہے اور دوسرا بلکل اوپر، ان کو ملانا بہت مشکل ہے۔ ان کا مطلب تھا کہ میں مری کا نواب ہوں، میں آپ لوگوں کے فکر کے ساتھ نہیں چل سکتا ہوں کیونکہ مجھے مری کے فکر اور روایات کو بھی ملحوظِ خاطر رکھنا پڑے گا اور آگے ساتھ لیجانا ہے۔ پھر جب ہم ہلمند سے واپس لوٹ آئے، تو ہمارے جتنے دوست تھے ایک جگہ جمع ہوئے کہ نواب صاحب تنظیم کاری نہیں کرنا چاہ رہا ہے کیونکہ وہ اپنے قبیلے اور ان مفادات کو چھوڑ نہیں سکتا ہے۔
جب ایران میں انقلاب آیا، تو ہماری صفوں میں یہ باتیں بھی ہونے لگیں کہ اب قومی جنگیں ختم ہوچکی ہیں اور مسلح جنگ نہیں ہوسکتی ہے، مجھے بھی دوستوں نے کہا کہ اب تم چھوڑ دو۔ میرا موقف تھا کہ دنیا میں اقوام ہیں، انکی افواج ہیں۔ وہ اپنے مفادات کے تحفظ کرتے ہیں، ہم بھی ایک قوم ہیں۔ تو میں اس سچائی سے کیسے انکار کروں کہ میں غلام ہوں اور اس کے خلاف جہد نہیں کروں؟ دنیا کی حالات جتنے بھی بدلیں، لیکن ہمیں سمجھنا ہوگا کہ میں دنیا کے ساتھ کتنا وابسطہ ہوں اور اپنے ساتھ کتنا وابسطہ ہوں؟ لہٰذا میں نے قومی آزادی کے جہد سے دستبرداری قبول نہیں کی۔ میں پہاڑوں کا تھا اور پہاڑنشین ہی رہا لیکن ایک دو دوستوں کے علاوہ باقی سارے دوست چھوڑ کر چلے گئے اور میں وہیں اکیلا رہ گیا۔ پھر فدا احمد نے ایک مہینے بعد پھر سے مجھ سے رابطہ کیا، اس وقت جتنے بھی قرب و جوار کے ساتھی تھے، ان سب سے فدا کا رابطہ تھا۔ بہرحال فدا احمد نے کہا کہ قومی آزادی کیلئے جنگ کے بغیر اور کوئی راستہ نہیں ہے، میرا جواب تھا کہ میں شروع سے یہی تو کہہ رہا تھا۔ فدا کام کرنے والا آدمی تھا اور لوگ اس کی باتوں سے اتفاق کرتے تھے، جن لوگوں نے انہیں نہیں دیکھا تھا تو انہوں نے میری رائے سے اتفاق کیا۔ تو اس طرح ایک بنیاد پڑی۔
پھر سننے میں آیا کہ رازق اور جالب وغیرہ توڑ پھوڑ کرکے تنظیمیں بنارہے ہیں۔ بہرحال میں ان باتوں سے دور تھا اور میرے رابطے کا بندہ فدا احمد تھا اور ان کی بہت بڑی عزت تھی۔ اس کے بعد یہ سلسلہ بی ایس او کے انضمام کے مرحلے میں داخل ہوا، فدا احمد نے مجھ سے اس بابت مشورہ کیا، میں نے کہا آپ لوگ بی ایس او کے دھڑوں کا اتنی جلدی انضمام نہیں کریں، انکا کہنا تھا کہ رازق اور جالب والے ساتھ مل رہے ہیں۔ میرا مشورہ تھا کہ پھر آپ ایسا کریں کہ ایک فرنٹ تشکیل دیں یا پہلے اپنا ایک مشترکہ بلیٹن یا ترجمان رسالہ نکالیں تاکہ فکر و سوچ ایک ہو، پھر انضمام کریں۔ بہرحال ان کا کہنا تھا کہ ہم پر پریشر ہے کہ انضمام کیا جائے ۔ تو میں نے کہا آپ لوگ خودمختار ہیں، اب میں بی ایس او کا ممبر بھی نہیں ہوں اورآپ جو باتیں کررہے ہو میں اس کا پابند بھی نہیں ہوں۔
بی ایس او کا انضمام ہوا پھر کچھ وقت کے بعد ان لوگوں کی طرف سے بی این وائی ایم بنایا گیا، پھر ڈاکٹر مالک وغیرہ نے الیکشن میں حصہ لیا، تو غلام محمد نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ غلام محمد فکری طور پر میرا ہم خیال تھا۔ انہوں نے دوستوں کو یہی کہا تھا کہ اگر میرعبدالنبی مطمئن ہوگا تو ٹھیک ہے، پھر میں آپ لوگوں کے ساتھ سنگتی کرونگا، اگر وہ مطمئن نہیں ہوگا تو میں بھی نہیں ہونگا۔
پھر دوسرے مسئلے پیدا ہوئے میں جیل چلا گیا اور جیل سے رہائی کے بعد غلام محمد سے ملاقات ہوئی، انہوں نے نواب صاحب سے کہا کہ میر کو ہمارے حوالے کردیں اور مجھ سے کہا کہ اب آپ بی این ایم میں آجائیں۔ میرا جواب تھا کہ میں دوسرے فیلڈ کا آدمی نہیں ہوں یہ سرفیس پالیٹکس کا ہنر مجھے نہیں آتا ہے اور میں اس قدر کارآمد ثابت نہیں ہوسکتا ہوں۔ انہوں نے نواب سے بات کی تو نواب صاحب نے جواب دیا کہ میں ان سے صلح مشورہ کرونگا کہ وہ کیا کہتا ہے۔ میں نے نواب صاحب کو بھی یہی جواب دیا، جو غلام محمد کو کہا تھا۔ تو اس طرح بی این ایم میں میری شمولیت نہیں ہوئی اور پھر غلام محمد شہید ہوگیا۔
93-94ء کے دور میں واحد قمبر اور کچھ دوسرے دوستوں نے ایک کوشش کی تھی کہ تنظیم کاری کریں، کچھ ایسے لوگ بھی تھے، جن کے بارے میں میرے تحفظات تھے۔ میں نے کھلے طور پر ان پراعتراض نہیں کیا، کسی کا نام بھی نہیں لیا۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ ایک تنظیم بنائینگے اور آپ ہمارے ساتھ شامل ہوجاؤ، ان لوگوں میں رحمدل، سدّو اور دوسرے کچھ دوست بھی شامل تھے۔ انکا کہنا تھا کہ نواب صاحب تنظیم کاری نہیں کررہا ہے۔ میں نے جواب دیا کہ ابھی تک مجھے وہ چیزیں نظر نہیں آرہے ہیں، میں ان لوگوں کو نہیں جانتا ہوں کہ کون یہ تنظیم کاری کرے گا۔ جب تک مجھے وہی چیز نظر نہیں آتی، جو حقیقی تنظیم کاری کے قابل ہو، تب تک میں حصہ نہیں بن سکتا۔ بہر حال میں نواب صاحب کی دوستی چھوڑ نہیں سکتا ہوں۔ جو بھی ہے ابھی تک مجھ پر صورتحال واضح نہیں ہے۔ کچھ ایسے عام شہری لوگ تھے جن سے میں مطمئن نہیں تھا، وہ اچھے دوست تھے لیکن مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ انقلابی مشکلات سے گذر پائینگے۔
جب سرکار نے کوہستان مری پر حملے کی تیاری کرلی تو 2000ء میں مجھے گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ میں سرکار کے ایجنٹس نہیں پہچان پایا۔ مجھے دوستوں کی شکل میں پوچھا گیا کہ اب تم کیا کروگے، میرا موقف تھا کہ اگر ایسی صورتحال پیش آتی ہے تو میں لڑونگااور اپنے فکری دوستوں کے ساتھ دونگا۔ مجھے فوج کے سبی کے کرنل کی طرف تین چار بار پیغام موصول ہوا کہ تم آﺅ خود کو پیش کرو۔ ان کہنا تھا ہم تمہیں زور زبردستی بھی گرفتار کرسکتے ہیں، لیکن میرا جواب تھا کہ آپ مجھے زبردستی گرفتار کرسکتے ہو لیکن میں خود نہیں آﺅنگا۔ پھر انہوں نے مجھے گرفتار کرلیا۔
جب میں جیل میں تھا تو اس دوران بی ایل ایف بنالیا گیا تھا، بنانے والوں میں سدو مری، رحمدل مری، قمبر اور دوسرے دوست شامل تھے اور غلام محمد و دوسرے دوستوں نے بی این ایم بھی بنالیا تھا۔ جب میں رہا ہوگیا، تو یہ تنظیمیں بنی ہوئی تھی۔
دی بلوچستان پوسٹ: حالیہ دنوں میں ہمیں براہمدغ بگٹی کے 27 مارچ کے حوالے سے متنازعہ موقف پر بہت سے سوالات اٹھتے نظر آئے اور اس بابت خوب بحث چھڑی۔ کیا آپ براہمدغ بگٹی کے موقف سے اتفاق رکھتے ہیں؟
عبدالنبی بنگلزئی: براہمداغ بگٹی کا 27مارچ حوالے سے بیان بالکل درست عمل نہیں تھا، اس حوالے سے میں نے اپنے ایک ٹویٹ میں بھی شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ تاریخی حوالے سے یہ موقف درست نہیں ہے بلکہ اس وقت اس مسئلے کو ایسے متنازع کرکے پیش کرنا جہد کے سمت کو تبدیل کرنے کے مترادف ہے۔ میں براہمداغ بگٹی کے موقف سے اتفاق نہیں کرتا ہوں اور اس بابت بہت سی وضاحتیں بھی سامنے آئیں۔ میں نے جن باتوں کا اظہار کیا تھا، ان نکات پر پھر بہت سے دانشوروں سمیت مختلف لوگوں نے زیادہ واضح صورت میں ثبوت پیش کرکے، تاریخی حوالا جات بیان کرکے بہت واضح انداز میں براہمداغ کے موقف کو غلط قرار دیا۔ میں ان دانشوران کی آراء سے اتفاق رکھتا ہوں۔ براہمداغ بگٹی ہمارے ایک نامور رہنما ہیں، انہیں یہ موقف اپنانا نہیں چاہیئے تھا۔ اب ان کو چاہیئے کہ وہ تاریخ کا مطالعہ کرکے اپنے موقف کی تصحیح کریں۔
دی بلوچستان پوسٹ: حالیہ دنوں ہمیں قومی تحریک کے حوالے سے دو اتحادیں دیکھنے کو ملیں، ایک اتحاد بی ایل اے اور بی ایل ایف کی شکل میں جس میں بعد ازاں بی آر جی بھی شامل ہوا اور دوسری اتحاد لشکر بلوچستان، یو بی اے اور بی آر اے کی صورت میں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ان اتحادوں کو وسعت، تقویت اور طوالت دینے کیلئے کیا اقدامات ضروری ہیں تاکہ انکا انجام ٹوٹ پھوٹ پر نا ہو؟
عبدالنبی بنگلزئی: اتحاد وقت کی اہم ضرورت ہے اور یہ تشکیل پاتے اتحاد خوش آئیند پیشرفت ہیں۔ چاہے یہ اتحاد بی ایل ایف، بی ایل اے اور بی آر جی کے درمیان ہو یا بی آرے، یوبی اے اور لشکر بلوچستان کے درمیان ہو۔ ان اتحادوں کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے اور سب کا اتحاد کی صورت میں ایک ہونا آج قومی ضرورت ہے۔ ایک بات ہمیں ذہن نشین کرنا چاہیئے کہ اتحاد محض اپنے مخصوص مفادات کے لیئے نہیں بلکہ قومی ضرورتوں، قومی اجتماعی مفادات اور ایک ہونے کیلئے ہونا چاہیئے۔ اگر ہم خود کو ایک قوم کہتے ہیں، تو ہمیں اس سرزمین اور اس کی آزادی کے ساتھ وفادار ہونا ہوگا۔ ہمارے درمیان ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے، جو قابلِ حل نا ہو۔ اگر کوئی سوچ یا غلط فہمی پیدا ہو تو پھر اس پر بیٹھ کر بات کریں۔ جو راستہ ہمارے لیئے بہتر ہو، اسی راستے کو اپنایا جائے۔ ان اصولوں کوطے کرنے کی ضروت ہے تاکہ اتحاد ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ ہوں بلکہ اور وسعت پاکر ایک تنظیم بننے کی جانب بڑھیں۔ بلوچوں کی ایک نمائیندہ تنظیم کی تشکیل ہم سب کا دیرینہ خواہش اور قومی تحریک کی ضرورت رہا ہے۔ اسے عملی جامہ پہنانے کیلئے ہمیں مخلصی کے ساتھ محنت کرنا ہوگا۔ سنگل پارٹی کا خواب شہید نواب اکبر خان بگٹی اور نواب خیربخش مری دونوں کا مشترکہ ایک خواب رہا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: ہمیں مسلح محاذ پر کسی نا کسی حد ایک چھوٹے دائرے میں ہی اشتراکِ عمل کے صورت میں ایک اتحاد نظر آتا ہے، لیکن سیاسی محاذ اور بیرونی ملک سفارت کاری حوالے سے ابتک پیشرفت صفر ہی ہے۔ اس حوالے سے کوئی مشترکہ محاذ کی ابتدائی شکل بھی نظر نہیں آتی، اس دہرے معیار کی وجہ آپ کیا سمجھتے ہیں؟
عبدالنبی بنگلزئی: اس حوالے سے بہت زیادہ بات ہوئی ہے کہ ہمارے سفار تکاری کے لئے مہارت، کوالٹی اور سمجھ بوجھ کی ضرورت ہے۔ یہ ایک بے غرض خدمت ہے، جہاں اپنے ذات سے نکل کر خلوصِ نیت کیساتھ کام کرنا پڑے گا۔ ہمیں ایک اتحاد اور مشترکہ قوت تشکیل دینا پڑیگا، کیونکہ دنیا آپ کی طاقت اور اپنے مفادات کو دیکھتی ہے۔ اگر آپ ایک طاقت بن گئے، تو ہرکسی کو دکھے گا کہ میرا اس سے کوئی مفاد پورا ہوسکتا ہے۔ اگر آپ منتشر شکل میں کچھ کرینگے، تو آپ کسی کے نظر میں نہیں آئینگے اور کوئی آپ کا خیال بھی نہیں رکھے گا اور نا ہی آپ کسی کی ضرورت پوری کرنے کے قابل ہونگے۔ جب آپ کسی کی ضرورت پورا نہیں کرسکیں گے، تو کوئی آپکی بھی ضرورت پورا نہیں کرے گا۔ اگر آپ کی کوئی کامیابی ہوگی، تبھی دنیا دیکھے گی کہ اسے آپ سے کتنا فائدہ ہوسکتا ہے۔
آج ہم دیکھ رہے ہیں ہمارے حق میں اس وقت تک گو کہ کچھ چیزیں جارہی ہیں، مگر ہماری سفارت کاری قدرے ناقص ہے۔ وہ فائدہ مند یا نتیجہ خیز ثابت نہیں ہورہا ہے۔ نتائج مکمل مایوس کن بھی نہیں ہیں، مطلب ہماری سفارت کاری بین الاقوامی اداروں میں آج موجود ہے۔ پہلے ہمیں سننے کے لیئے کوئی تیار نہیں تھا اور آج پاکستان اپنی کوشش کررہا ہے کہ ہمیں عالمی سطح پر اپنی آواز بلند کرنے سے روکے لیکن ہماری قدرے کامیاب سفارت کاری کے بدولت آج دنیا کہہ رہی ہے کہ انہیں بات کرنے دیا جائے۔ اب یہ ہمارے سوچ و فکر پر منحصر ہے کہ ہم کس طرح متحد ہوکر اس سے آگے بڑھیں اور دنیا کے سامنے خود کو منوانے میں کامیاب ہوجائیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: آپ پانچ دہائیوں سے ایک کمزور کے حیثیت سے ایک طاقتور دشمن کے ساتھ لڑرہے ہیں، اس دوران تقریباً ایک دہائی تو آپ نے جیل و زندان میں گذار دی، اب آپ بوڑھے ہوچکے ہیں لیکن پھر بھی آپ رکے نہیں ہیں، وہ کونسی سوچ یا یقین ہے جو آپکو ہار ماننے نہیں دیتی اور جیت پر آپکا ایقان پختہ کیئے ہوئے ہے؟
عبدالنبی بنگلزئی: میں ہمیشہ سے تاریخ کا عمل دیکھتا آیا ہوں، تاریخ ہمیشہ آگے بڑھتی ہے، میں یہ دیکھتا ہوں کہ اگر میں بوڑھا ہوتا ہوں تو کوئی نوجوان میری جگہ لینے موجود ہے۔ آج ہماری قوم میں شعورزیادہ وجود رکھتی ہے، جس سے کامیابی پر میرا یقین اور زیادہ پختہ ہو جاتا ہے۔ دوسری سچائی یہ ہے کہ میری قوم و ملک غلام ہیں، تو یہ میرے فرائض میں شامل ہے کہ اس ظلم و ناانصافی کے خلاف مجھ سے جو بھی ہوپاتا ہے وہ کروں، میرا بڑھاپا یا بیماری مجھے میرے فرائض سے استثنیٰ نہیں دیتے اور سرینڈر کرنا کوئی زندگی نہیں ہے۔
یہ میرا یقین ہے کہ بطور قوم آج نہیں تو کل ہم سمجھ جائینگے کہ تاریخ کا عمل بہتری اور کامیابی کی طرف جاتا ہے۔ گو کہ میں جسمانی حوالے سے بوڑھا ہوچکا ہوں، لیکن میرے نظریے اور یقین نے مجھے فکری صورت میں کبھی بوڑھا ہونے نہیں دیا بلکہ آج میرا یقین پہلے سے بھی زیادہ پختہ ہوچکا ہے کیونکہ آج کامیابی کے آثار مزید نمایاں نظر آرہے ہیں۔ مجھے کوئی مایوسی نہیں ہے، میرا یقین ہے اب یہ تحریک کسی بھی صورت ختم نہیں کیا جاسکتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: یقیناً آپ نے اس طویل سفر کے دوران بہت سے نشیب و فراز دیکھے، اپنے ان تجربات سے آپ نے وہ کیا سیکھا جو ایک بات آپ چاہیں گے کہ سارے بلوچ نوجوانوں کو منتقل ہوجائے؟
عبدالنبی بنگلزئی: میں اس مقام پر نہیں ہو کہ کسی کو کوئی سبق دے سکوں یا کوئی ایسی سبق آموز بات کہہ سکوں۔ میں نے خود جس رستے کو اپنایا وہ یہ کہ ہمیشہ اپنے مقصد پر یقین رکھیں اور اس پر استقامت کے ساتھ قائم رہیں، کسی بھی حالت میں مایوسی کو اپنے گرد بھٹکنے نا دیں، اور یقین رکھیں کہ تاریخ ہمارے ساتھ ہے۔ پھر یقیناً کامیابی ہماری ہوگی۔
دی بلوچستان پوسٹ: میر عبدالنبی کی جنگ ایک کیسے بلوچستان کیلئے ہے؟
عبدالنبی بنگلزئی: ایک ایسا آزاد، متحدہ بلوچستان جس میں ہر فرد کو برابری کا احساس ہو۔ میں ایک “فری یونائیٹڈ ڈیموکریٹک بلوچستان” چاہتا ہوں۔
دی بلوچستان پوسٹ: آپ تاریخ میں کیسے الفاظ کیساتھ یاد رکھے جانا چاہیں گے؟
عبدالنبی بنگلزئی: ظاہر ہے لوگ ایک دوسرے سے سیکھتے اور سمجھتے ہیں، شعور صرف باطنی نہیں بلکہ ایک خارجی حاصل بھی ہے۔ نیلسن منڈیلا سے جب یہی سوال پوچھا گیا تھا تو انکا جواب تھا کہ کہا جائے “وہ ایک ایسا انسان تھا، جس نے اپنا فرض پورا کیا۔“ نیلسن منڈیلا نے اپنے قوم کو آزاد کرکے اپنا فرض پورا کیا، لیکن میرے فرائض کی ابھی تک تکمیل نہیں ہوپائی ہے۔
اگر میری قوم، میرے مرنے کے بعد مجھے بس ان الفاظ کیساتھ یاد رکھ پائی کہ “وہ ایک ایسا انسان تھا، جو پوری زندگی اپنے موقف و نظریئے پر اٹل رہا۔” تو یہی میرے لیئے ایک بہت بڑے اعزاز سے کم نہیں۔