تبریکِ آمنہ یا تذلیلِ دشمن؟
برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
مادر وطن پر جس دن سے پاکستان جیسے درندہ صفت ریاست نے قبضہ کیا ہے، اس دن سے لیکر آجتک بلوچ نوجوان، بزرگ، اوربچوں کے ساتھ ساتھ بلوچ خواتین بھی پاکستانی فوج کے ہاتھوں اغواء ہورہے ہیں، اغواء ہونے کے بعد کچھ خواتین طویل دردناکیوں کی داستان دامن میں سمیٹے بازیاب ہوتے ہیں لیکن اکثریت زندگی بھر بغیر نام و نشان کےغائب ہی رہتے ہیں اور کچھ تار تار عصمت کے ساتھ سہمی ہوئی گھر واپس لوٹتے ہیں۔ یہ تلخ داستانیں آج سے نہیں 70 سال سے بلوچوں کے ساتھ دہرائے جارہے ہیں۔ دشمن بھی پنجابی ہے، جو انسانیت سے عاری ایک غیر مہذب دشمن ہے، اس کی سامنے گلہ کرنے اور رونے کی کوئی اہمیت نہیں، سوائے اینٹ کا جواب پھتر سے دینے کے، نا یہ کوئی اور زبان جانتا ہے اور نا سمجھتا ہے۔
جی ہاں یہ وہی پنجابی ہے، وہی پاکستان اور وہی پاکستانی فوج ہے، جب ان کے غلیظ ہاتھوں سے بنگالی اور بنگلہ دیش آزاد ہوا تو بنگالی لیڈر شیخ مجیب الرحمان صاحب کسی دوسرے ملک دورے پر گئے، وہاں لوگوں نے بنگال کی آزادی کی انہیں مبارک باد دی تو اس نے جواباً خیر مبارک نہیں کہا بلکہ ان الفاظ میں ان کا شکریہ ادا کیا “بنگال تو آزاد ہوگیا لیکن بدقسمتی سے میرے بنگلہ دیش میں تقریباً پاکستانی فوج کے ہاتھوں کوئی بنگالی لڑکی کنواری نہیں بچی ہے۔ مجھے اس بات کا دکھ اور انتہائی کرب ہے، لیکن آزادی کی قیمت چکانی پڑتی ہے اور دشمن سے گلہ بھی نہیں کرنا چاہیئے۔”
حالیہ دنوں ایسے موقع پر واجہ براہمداغ بگٹی صاحب کا ایک وڈیو پیغام نظروں سے گذرا، جہاں ایک طرف بلوچستان کے علاقے آوارن جھاو سے سینکڑوں بلوچ بیٹیاں فوج اور مقامی ڈیتھ اسکواڈ کے ہاتھوں اغواء اور تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں اور کہیں بی بی آمنہ کی طرح نیم بے ہوشی کی حالت میں رہا ہورہے ہیں، اور کئی ابھی تک ریاستی عقوبت خانوں میں پتہ نہیں کس حالت میں زیست گذار رہے ہیں، واجہ براہمداغ کی جانب سے پاکستان کے ایسے گھناونے اور بزدلانہ اعمال کی وجہ سے وطن اور بلوچ قوم سے کوسوں دور بیٹھے ہوئے، ایک پرجوش لعنت بھیجنا چاہیئے تھا، بجائے مبارک باد دینے کے۔ کس کو مبارک باد، کیوں مبارک باد؟ رہا ہونے والے کو؟ رہا کرنے والے کو یا پھر رہائی کی سفارش کرنے والا کو؟
رہا تو بی بی آمنہ ہوچکی ہے، کوئی پوچھے، کوئی دیکھے کہ آمنہ کی حالت کیا ہے؟ آج آمنہ اس نیم بیہوش حالت میں مجھ سے ہر بلوچ بھائی و جہدکار اور واجہ براہمداغ کی طرف دیکھ کر کیا توقع و امید بہتے آنسوؤں، گہرے زخموں کے ساتھ باندھ رہی ہوگی؟ لہولہان بدن پر بلوچی دوچ کے پٹھے ہوئے کپڑے ودوپٹہ اور مٹی و خون کی خوشبو کی مہک بالوں کی گیسسوؤں میں لیئے، وہ انکو ہاتھ لگا کر ضرور یہ سوچے گی کہ ڈاکٹر شازیہ مادروطن بلوچستان کی بیٹی نہیں تھی، لیکن اس کیلئے کیا نہیں ہوا، میں تو بلوچ بیٹی ہوں میرے لیئے تو پھر میرے بھائی دشمن کے ساتھ کیا کچھ نہیں کریں گے۔
افسوس شہیدِ وطن اکبرخان بگٹی کے سیاسی جانشین واجہ براہمداغ بگٹی کی طرف سے آمنہ کو رہائی پر مبارک باد کے پیغام کے علاوہ اور کچھ میسر نا آیا۔ آمنہ کو کس چیز کا مبارک؟ عقوبت خانوں میں کچھ دن گذارنے کا؟ عزت سے بازیاب ہونے کا؟ نیم بے ہوشی کی حالت میں جنگل میں پھینکے جانے کا؟ یا پھر فریضہ حج ادا کرنے یا شادی کرنے کا؟ کس لیئے کیوں؟ یا پھر دشمن کو مبارک باد کہ اگر آپ ہزاروں کی تعداد میں کیوں نا بلوچ مرد و خواتین اس وقت آغواہ و گرفتار کرچکے ہے، اگر آپ ایک دو چھوڑ دیتے ہیں، پھر بھی آپ مبارک باد کے مستحق ہیں؟
ہم کس دنیا میں، کہاں رہ رہے ہیں؟ کیسے انسان ہیں، کیوں اتنے علم و عقل اور سوچ کے حوالے سے پیدل ہیں؟ کس بے وقوف نے ہمیں قیادت اور جہد کرنے کا حق دیا ہے؟
دنیا کے غالباً تمام انقلابی لیڈروں اور انقلابی دانشوروں کا ایک مشہور و معروف جملہ اس وقت ہزاروں کتابوں، اذہان اور تاریخ کے پرنوں پر واضح طور پر موجود ہے کہ دشمن مظلوم و محکوم قوم کیلئے، اس کی محکوم سرزمین پر اگر دودوھ اور شہد کی نہریں تک بہادیں، پھر بھی ان نہروں کی مخالفت مذمت اور اپنی لوگوں کی دلوں میں نفرت پیدا کرنا چاہیئے۔ کبھی خاموش نہیں رہنا چاہیئے۔ تمھاری خاموشی سے ایسا نہ ہو، مظلوم قوم کے دلوں میں دشمن کیلئے ہمدردی پیدا ہو، کیونکہ دشمن کی شہد اور دودھ کی نہریں بھی مظلوم کیلئے زہر ہوتےہیں۔ دشمن سے کبھی خیرخواہی اور اچھائی کی توقع نہیں کرنا۔
ماؤ ایک جگہ کہتے ہیں کہ ” اگر دشمن دن کہے تو تم رات بولو، اگر دشمن رات بولے تو تم دن کہو، تاکہ تمہارے اور دشمن کے بیچ فرق کا لکیر کھینچا رہے۔” بلوچ اور دشمن کے بیچ سیاہ و سفید کی جو واضح لکیر ہے، واجہ براہمداغ یا ابتک اس واضح لکیر کی پہچان کرنے میں ناکام ہورہے ہیں، یا پھر”گِرے پولیٹکس” کا میدان سجانا چاہتے ہیں۔ جہاں نا کوئی چیز سیاہ ہے اور نا ہی سفید بس سب سرمئی۔
وگرنہ یہ کیسے ممکن ہوتا کہ قومی قیادت کا دعویدار شخص ایک ایسے وقت میں جب جھاو، مشکے، آواران و گردو نواح میں مہینوں سے آپریشن بلا تعطل جاری ہے، آبادیوں کی آبادیاں بزورِ طاقت منتقل کی جارہی ہیں، خواتین کی اجتماعی بے حرمتی کے دل دہلا دینے والے ظلم کی نئے داستان رقم ہورہے ہیں اور وہ ایسے وقت میں کہتے ہیں کہ ” دشمن کے دل میں احساس و رحم پیدا ہوچکا ہے۔”
خاکمِ بدہن، یہ بیانیہ ایک سیاسی نادانی ہے یا یہ مبارک بادی ایک تسلسل کا حصہ ہے، جس کی کڑیاں پیچھے سے نواز شریف کو مبارک باد دیکر ہیرو قرار دینے، بلوچ پر جبری قبضے کے دن 27 مارچ کو یومِ قبضہ تسلیم کرنے سے انکار کرکے اسے متنازعہ بنانے اور اس سے پہلے خفیہ ملاقاتوں اور مذاکرات و ڈیل پر آمادگی ظاھر کرنے سے ملتی ہیں؟
پھر کیا مذمت، نفرت اور لعنت کے بجائے شعوری یا لاشعوری، دانستہ یا نادانستہ طور پر چند بلوچوں کی رہائی پر دشمن کیلئے خود ہمدردی پیدا نہیں کرر ہے؟ یہ نادانی، ناسمجھی، کم علمی ہے یا ریاست کے دل میں ہمدردی پیدا کرنے یا ناراضی مٹانے کی کوشش؟ پھر بلوچ جہد اور بلوچستان پر نظر رکھنے والے دنیا کی نظر میں، بلوچ جہد آزادی بھروسہ، اعتماد، اہمیت اور قدر کی پوزیشن کیا ہوگی؟
میں ہمیشہ کہتا ہوں آج بھی کہوں گا، برائے کرم، دنیا کو اتنا بے وقوف نہیں سمجھا جائے، جتنا ہم دنیا کو بے وقوف سمجھتے ہیں اتنا ہی ہم دنیا کی نظر میں بے وقوف دیکھائی دیتے ہیں۔
پھر ہم چیختے چلاتے ہیں دنیا ہمیں ابھی تک کیوں صحیح طریقے سے کمک نہیں کرتا، کیا دنیا بے وقوف ہے؟ ہمارے چند مظاہروں، فوٹوسیشن، پریس ریلز، ٹویٹ، پوسٹ، سوشل میڈیا کمپین وغیرہ سے اپنی پالیسی تبدیل کرکے، پاکستان جیسے ہروقت مفت میں کام آنے والے وفادار ملک کے ساتھ کوئی اپنے تعلقات خراب کرے گا؟
کوئی نسوار بیچنے والا شخص تک، جب تک اپنا مفاد اور ذیادہ فائدے کے آثار اگر نہیں دیکھے، تو وہ بھی اپنا سرمایہ خرچ نہیں کرتا۔ یہاں تو ہم عالمی طاقتوں کی بات کررہے ہیں۔
پھر بھی ہم اپنی غیر سنجیدگی، طفلانہ رویوں، حرکتوں، اعمال، فیصلوں اور بیانوں کے باوجود وسیع پیمانے پر دنیا سے مدد اور کمک کی توقع کرتے ہیں۔ جو خود کو اور قوم کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔
آج مجھے بھی اچھی طرح معلوم ہے، واجہ براہمداغ بگٹی صاحب اور ہر ذی شعور بلوچ کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کو اچھی طرح علم ہے کہ اگر پاکستان کچھ بے گناہ بلوچوں کو رہا کررہا ہے، تو وہ بلوچ کون ہیں؟ ان کا تحریک اور جہدوجہد سے تعلق کیا ہے؟ دشمن انہیں کیوں رہا کررہا ہے؟ کس کے کہنے پر؟ یہ بات واضح ہے، خفیہ ادارے باقاعدہ طور پر اپنے ایجنٹوں سرفراز، قدوس، شازین، گزین، جنگریز،عالی، حاصل، اسلم بزنجو، شفیق وغیرہ جیسوں کو کچھ ریلیف دینے اور بلوچ قوم میں ان کیلئے ہمدردی پیدا کرنے اور ان کی عوض رہائی پانے والے بلوچوں کے خاندان، علاقے اور قبائل کو نام نہاد الیکشن میں ووٹ ڈالنے اور الیکشن میں حصہ داری کیے مقاصد کی خاطر یہ سب کچھ ہورہا ہے۔
چند بے گناہ بلوچوں کی رہائی کو ہم خوشی جان کر مبارک بادی پیش کریں، جشن منائیں، خیرات اور دعوت کا اہتمام کریں، باقی ہر روز سینکڑوں بلوچ مرد اور خواتین اغواء اور شہید ہورہے ہیں، ان کیلئے کیا کررہے ہیں؟ کیا پالیسی مرتب کررہے ہیں؟ کیا پروگرام ترتیب دے رہے ہیں؟ کبھی سوچا ہے؟ اس پر عمل کیا ہے؟ آج جو شہید ہوچکےیا جو غائب ہیں انکے خاندان اور لوگوں کی کیا حالت ہے؟ ان کے بارے میں ہماری پالیسی اور پلان کیا ہے؟
جن کی ہر وقت نظر بلوچ قوم، بلوچستان اور بلوچ قومی تحریک پر ہے۔ وہ کیا دیکھ اور کیا محسوس کررہے ہیں اور کیا سبق حاصل کررہے ہیں؟ ہمیں معلوم ہے کہ ہمارے ہر معمولی سے غیر معمولی پالیسی، اقدام، آراء اور فیصلہ ہماری اپنی قوم سرزمین اور جہدوجہد کے ساتھ مخلصی سنجیدگی میچورٹی اور ذمہ داری کی عکاسی کرتا ہے۔ دنیا اور خصوصاً بلوچ قوم ہمارے ایسے چیزوں کو دیکھ کر ہمارے تحریک کے بارے میں فیصلہ کرتا ہے، پھر ہم سوچ اور اعتماد کے حوالے سے آج کہاں اور کس مقام پر کھڑے ہیں؟
ہمیشہ دشمن کے ہر عمل، ہر کردار، ہر رویئے، چاہے وہ ظاہری، مصنوعی اور وقتی طور پر بلوچ کی حق میں کیوں نہ ہو اس کو مذمت، نفرت اور مخالفت کی نگاہ سے دیکھ کر بلوچوں کے دلوں میں نفرت پیدا کرنا ہوگا اور خود تمام جہدکار دشمن کی تمام اقدام پر کبھی بھی خوشی اور غم کا شکار ہونے کے بجائے، صرف اور صرف اپنی قومی جنگ پر مکمل توجہ دے۔ جب جنگ شدت اختیار کرے گی، باقی تمام سوچ، مسائل، امراض، ذہنیت، خود بخود اپنی مدد آپ فنا ہوجائینگے، تمام تنظیموں کے فکری و ہم خیال اور سنجیدہ دوست اس حوالے سے مزید سنجیدہ اور یکجا ہوکر اب عملاً اپنا ایک واضح پالیسی اور پروگرام ترتیب دیں۔
اگر ہم درست رویے اختیار نہیں کرسکے اور صحیح اقدامات نہیں اٹھاسکے تو پھر خدانخوانستہ یہ بلوچوں کا آخری قومی جنگ اگر ہاتھ سے چلا گیا، پھر فخر کیلئے کوئی لیڈریا کوئی پارٹی بچے گا اور نہ ہی ہمارے لیئے کوئی دوسرا ہمدرد ملک اور قوم بچے گا۔
آج تمام چیزوں کا ایک دوسرے کے ساتھ رشتہ اور تعلق ہے، وہ قومی جنگ کے مرہون منت ہیں اور قومی جنگ کیلئے ہمیشہ جنگی ماحول کی ضرورت ہوتی ہے، جنگی ماحول اس وقت پیدا ہوگی جب ہم خود باقی تمام ایرے غیرے، نتو خیرے، گرے ہوئے سطحی کم ضرف توتو میں میں کی سوچوں کا قلع قمع کرکے ان کو گندی نالیوں میں پھینک دیں، تب جاکر کوئی بھی چیز ہمیں منزل پر ڈیرے ڈالنے سے نہیں روک سکے گی۔