بی ایل ایف اور بی آر اے کی بیان بازی، فائدہ کس کو؟
برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
میں نے بار بار سوچا اور غور کیا کہ اگر میں اس موضوعِ بحث پر کچھ اظہار خیال کروں، تو ایسا نہیں کہ میرا اظہار خیال از خود اس بیان بازی کی زمرے میں شمار ہو؟ لیکن باربارذہن میں کچھ سوال پیدا ہورہے ہیں، اگر وہ مناسب طریقے سے پیش کرسکوں، اس میں حرج کیا ہے؟
یہ ایک حقیقت ہے اور اس میں کوئی دورائے نہیں کہ سوچ، طریقہ کار، حکمت عملی، رویوں، ذہنیت اور نقطہ نظر کی حد تک شروع دن سے بلوچ آزادی پسند مسلح و غیر مسلح تنظیموں میں اختلافات ضرور موجود رہے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تنظیمی و تحریکی اختلافات کو سوشل میڈیا اور اخبارات کی زینت بنا دیا جائے۔ اگر ان اختلافات کو ذینت بنانا ہے، تو اس سے پہلے یہ سوچنا بے حد ضروری ہوگا کہ اس عمل سے فائدہ کس کا ہوگا؟
اس عمل سے بی آر اے و بی ایل ایف کو فائدہ ہوگا؟ فائدہ مجموعی تحریک، قومی نظریئے، بلوچ قوم، بلوچ سرزمین کا ہوگا یا پھر فائدہ دشمن اٹھائے گا؟ اس پر ہر قسم کے جذبات، تنظیمی تعصب، انا پرستی و ضد سے ہٹ کر سنجیدگی سے سوچنا ہوگا اور اس کا صحیح طریقے سے تجزیہ کرکے نتیجہ اخذ کرنا ہوگا، بصورت دیگر سطحیت بہتر کی سعی لاحاصل ہوگی۔ گر کوئی بندہ سڑک کنارے سبزی کا ٹھیلہ تک لگاتا ہے تو اس سے پہلے کئی بار سوچتا ہے، وہ تمام پہلووں کی جانچ کرتا ہے کہ اس ٹھیلے سے مجھے اور میرے گھر والوں یا گاہکوں کو کیا اور کتنا فائدہ اور کتنا نقصان ہوگا۔ ہم تو یہاں ایک قومی تحریک چلا رہے ہیں، وہ بھی بلوچ نوجوانوں کے خون و پسینے، محنت اور مشقت کے قیمت پر اس تحریک کو آگے بڑھارہے ہیں اور بلوچ قوم کی زندگیوں کو داو پر لگارہے ہیں۔ پھر بھی اگر ہم کسی عمل سے پہلے نہیں سوچینگے، غور نہیں کرینگے، تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری سوچ و اپروچ، علم و شعور کا پیمانہ کس مقام پرکھڑا ہے؟
تنظیمی اور تحریکی مسائل کہاں پیش نہیں آتے؟ تحاریکِ عالم پر ایک جائزہ لیں تو سب اپنے تئیں مسائل رکھتے تھے۔ لیکن ان کے حل اور درمیانی راستے بھی ضرور موجود تھے اور ہنوز وجود رکھتے ہیں۔ بشرطیکہ درمیانی راستے اور حل پر توجہ و دلچسپی اور حل کو ڈھونڈنے کی سعی ہو۔ کیا آج اور ابھی تک وہ علم و شعور اور صلاحیت ہم میں پیدا نہیں ہوئی ہے؟ اگر ہم میں وہ صلاحیتیں دستیاب نہیں، تو پھر تحریک و بلوچ قوم کا بِیڑہ اٹھانا اور ایک ایٹمی قوت کے حامل ملک ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی شاطر اور چالباز دشمن سے نبردآزما ہونے کا حق ہمیں حاصل ہے؟ کہ ہم اس سے لڑیں اور پوری قوم کو داو پر لگا دیں۔ جب ہم معمولی سے معمولی، سطحی مسائل تک کو حل کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں، پھر بلوچ قوم، بلوچ تحریک کو متحد کرنا، دشمن کو شکست دینا، قومی تحریک کو منزل مقصود تک پہنچانا بہت دور کی بات ہوگی۔
اب بلوچ سیاست میں تحریکی یا تنظیمی یا ذاتی رنجشوں اور اختلافات کو کوئی بھی خوبصورت نام دیکر آج کل میڈیا کی ذینت بنانا ایک رواج بن چکا ہے۔ آج سوشل میڈیا ہی ہماری مقدس اور پارسا عدالت و منصف بن چکی ہے اور مکالمہ و مذاکرات کی میز بن چکی ہے۔
کھلم کھلا مذاکرات، مناظرہ، مذاکرے، مکالمے اور بیان بازی کے ذریعے ہم کس کی اور کن کن کی توجہ اپنی جانب مبذول کرنا چاہتے ہیں؟ کس کس کو آگاہی فراہم کررہے ہیں؟ کس کو اپنی خامیوں، نالائقیوں، کمزوریوں کے درد کا داستان سنا رہے ہیں؟ یواین کو؟ یورپین یونین کو؟ انسانی حقوق کی تنظیموں کو؟ ہمدرد قوموں کو؟ بلوچ قوم کو؟ تنظیمی دوستوں کو یا پھر ظالم و جابر اور شاطر دشمن کو؟
اکثر یہ من گھڑت و بے بنیاد دلیلیں سننے کو ملتی ہے کہ ہم حقائق قوم کے سامنے رکھینگے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کونسے قوم کے سامنے؟ بلوچ قوم؟ کیا بلوچ قوم صرف سوشل میڈیا میں موجود ہے اور کوئی نہیں ہے؟ بلوچ قوم میں ایجوکیشن ریشو کتنا فیصد ہے؟ کتنے فیصد نیٹ استعمال کرتے ہیں؟ کتنے فیصد تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود، تحریک انکا دردِ سر نہیں۔ کتنے فیصد بلوچ عوام انٹرنیٹ کی سہولت سے محروم ہیں وہ نہیں جانتے ہیں کہ انٹرنیٹ کس بلا کا نام ہے؟
کیا اس وقت بلوچ زیادہ تعداد میں سوشل میڈیا میں موجود ہیں یا دشمن؟ پھر کس کو ہم اپنے اپنے درد داستان اور گلہ سنا رہے ہیں؟ کس مقصد کے تحت ؟
ہاں البتہ یورپ، خلیج و دیگر بیرون ممالک میں بیٹھے ہوئے بلوچوں کا واسطہ ضرور سوشل میڈیا کے ساتھ ہے۔ پھر یہ تمام بیان بازی صرف ان کیلئے؟ ان کو آگاہ کرنے کیلئے؟ کس لیئے کس مقصد کے تحت؟ ایک کو غلط قرار دینے، اپنے آپ کو سوشل میڈیا اور بیان بازی کی حد تک صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرنے سے، آج تک اس سوشل میڈیا ٹرائیل کے بدولت کتنے فیصد بیرون ملکوں میں مقیم بلوچ ایک پارٹی کو غلط اور دوسروے کو صحیح سمجھ کر اس سے لاتعلق ہوکر اپنی وفاداریاں دوسروں کے ساتھ تبدیل کرچکے ہیں؟ سوائے چند مٹھی بھر مخصوص ذاتی، معاشی مفاد پرست طبقے کے علاوہ؟ وہ کبھی ادھر کبھی ادھر۔
پھر یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ ہر تنظیم اور پارٹی میں اس وقت کتنے گروانڈ سے وابستہ مخلص، ایماندار، محنت کش، قربانی کے جذبے سے سرشار، ہمسفر اسی سوشل میڈیا کی گند آلود کج بحثی، الزام تراشیوں اور کردار کشیوں کے سلسلے میں بلوچ تحریک سے مایوس اور بدظن ہوچکے ہیں یا پھر آج تک تحریک کے ساتھ وابستہ ہوتے ہوئے الجھن و مایوسی کا شکار ہوکر ڈگمگاتے قدموں کے ساتھ وابستہ ہیں؟
یہ تو تحریکی ہمسفروں کی حقیقت ہے لیکن مجموعی بلوچ قوم پر اس سوشل میڈیائی گند آلود کج بحثی اور بیان بازیوں سے جو منفی اثرات پڑے ہیں، اگر کبوتر کی طرح ہم آنکھیں بند نہ کریں، مینڈک کی طرح کنویں میں رہ کر کنویں کو پوری دنیا تصور نہ کریں، تو ہمیں آج گراونڈ میں صحیح پوزیشن کا صحیح انداذہ ہوگا۔
میں بار بار کہہ چکا ہوں، آج بھی برملا کہتا ہوں کہ کچھ مخصوص طبقات آج بھی واضح انداز میں تحریک میں موجود ہیں کہ وہ بلکل اور بلکل یہ نہیں چاہتے ہیں کہ تحریکی مسائل صحیح طریقے سے حل ہوں، کیونکہ ان کی تمام ذاتی خواہشات، مفادات اور معاشی پیداوار انہی آپسی اختلافات میں پنہاں ہیں۔ جب اختلافات ختم ہونگے پھر ان کو کوئی پارٹی و تنظیم اور قیادت گھاس بھی نہیں ڈالے گا۔ آج کل مخلص ایماندار کارکنوں سے ذیادہ آپسی ضد و نفرت اور مخالفت کے ثواب میں ایسے لوگوں کی قیمیت اور زیادہ ہے اور یہ طبقہ اپنے عمل و کردار اور صلاحیتوں کو خود جانتے بھی ہیں کہ بغیر آپسی اختلافات اور چاپلوسی کے انکے پاس کچھ نہیں، لہٰذا وہ ان کو ہوا دینے کی مزید کوشش کرکے غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہینگے۔
جب موجودہ تحریک شروع ہوا تو اس وقت جو جتنا محنت کرتا، باہنر و باصلاحیت، بے غرض و مخلص، بہادر اور قربانی کیلئے ہر وقت تیار ہوتا اور ہر سخت سے سخت کام کا رسک لیتا وہ سب سے زیادہ پارٹی و تحریک میں قابل قدر اور اہمیت یافتہ ہوتا۔
سوشل میڈیا کی گند آلود بحث اور آپسی اختلافات کی پاداش میں سنگتی کا پیمانہ اور معیار یکسر بدل گیا،جو جتنا بھی چاپلوس و خوشامدی، صرف اپنی پارٹی اور قیادت کی دن و رات ثناء و صفت خوانی کرے اور دوسروں کو برا بھلا کہے اور بلوچ قوم بلوچستان کیلئے کچھ کرنا اپنی جگہ کچھ کرنے کا سوچ بھی نہیں لگائے، وہ اہمیت یافتہ اور قابل قدر ہوگا۔ یہ معیار اور پیمانہ دن بہ دن بلوچ تحریک میں آزاد خیالی، موقع پرستی، خودغرضی، مفاد پرستی اور کچھ نکالو اور زندگی سنوارو کی غلیظ ترین سوچ ماحول اور رجحانات کو بڑھاوا دے رہا ہے، جو انتہائی خطرناک اور بڑی تباہی و بربادی ہے۔
شاید تحریک کا یہ خطرناک و مایوس کن اور نقصاندہ تحریکی عمل مرحلہ مستقل اور دیرپاء نہ ہو، لیکن اس وقت یہ تحریکی مرحلہ اور کیفیت بلوچ قوم اور بلوچ نوجوانوں پر آخری حدتک اپنی منفی اثرات مرتب کررہا ہے، جو تحریک میں مایوسی اور بدظنی کے ماحول اور رجحان کو پروان چڑھا رہا ہے۔
دنیا کی دیگر مختلف تحریکوں کے مطالعے و جائزے اور تحیقیق سے یہ نتیجہ ضرور اخذ ہوچکا ہے کہ دنیا کے تمام چھوٹے اور بڑے کامیاب اور ناکام تحریک ایسے صورتحال اور مراحل سے ضرور دوچار ہوئے ہیں۔ لیکن وہاں تحریک کے قیادت کی دوراندیشی، بالغ نظری، فہم و ادراک، صبر وتحمل ایسے رجحانات، ماحول اور طبقات کا بیخ کنی اور حوصلہ شکنی کرنے میں کامیاب ہوئے۔ تو آج بلوچ قیادت کے سامنے تمام صورتحال روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں کہ ایسے صورتحال کو کس طرح اور کیسے قابو پائینگے بشرطیکہ اگر قیادت خود ایسے رجحان اور ماحول کا شکار نہ ہو۔ اگر بلوچ قیادت خود براہِ راست بلاواسطہ یا بالواسطہ ایسے مرحلے، ماحول اور رجحانات کا لاشعوری یا شعوری طور خود بھی شکار ہیں، تو پھر یہ بلوچ قوم اور قومی تحریک کی بدقسمتی اور زوال کا واضح علامت ہے۔
میں ہرگز یہ نہیں کہتا ہوں کہ اختلافات موجود نہیں، معمولی اور غیر معمولی واقعات بھی پیش آتے ہیں، لیکن بجائے جذباتی ہونے کے ان پر صبر و تحمل کے ساتھ تحقیق و غور کیا جائے۔ ایک دوسرے کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہیں، ایک نہیں 50 دفعہ بیٹھیں۔ ایک سال لگ جائے فرق نہیں پڑتا لیکن میڈیا میں مسائل نہیں لائیں جائیں۔ اگر پانچ منٹ کیلئے غور کریں اور ٹھنڈے دماغ سے حالیہ بیان بازی پر سوچیں کہ فاہدہ کیا ہوا؟ کوئی وضاحت کرسکتا ہے؟ ایک معمولی سا کوئی فائدہ بتا سکتا ہے؟ جو بلوچ قوم، بلوچ تحریک یا بی آر اے اور بی ایل ایف کیلئے سود مند ہو؟ میرے خیال میں نہیں، سوائے دشمن کیلئے آسانی پیدا کرنے اور بلوچ تحریک سے وابستہ صرف اور صرف مخلص اور ایماندار کارکنوں کیلے تکیلف اور پریشانی پیدا کرنے کے۔ قطع نظر بے عمل و بے کردار چاپلوس موقع پرست ٹولوں کے جن کیلئے یہ کھینچا تانی باعث سکون و باعث خوشی ضرور ہوگا۔
ہمیں ردعمل، جذباتیت اور پریشر پولیٹکس سے ہٹ کر ذرہ سنجیدگی سے تمام چیزوں کے تمام پہلوؤں پر اس وقت انتہائی غور کرنے کی ضرورت ہے، پھر تمام تحریکی مسائل، گفت و شنید سے بہتر انداز میں حل ہونگے۔