بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں بلوچستان میں فوجی آپریشنز اور خواتین کو ہراساں اور لاپتہ کرنے کے واقعات پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی ریاست اپنے طاقت کے نشے میں عالمی جنگی قوانین اور انسانی حقوق کے عالمی قوانین کو اپنے پاؤں تلے روند کر اپنی دہشت گردانہ کاروائیواں میں شدید اضافہ کرکے خواتین اور بچوں کو بھی اپنی طاقت کا نشانہ بنا رہا ہے جو انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی اور بلوچ روایات کی تاریخی اور تہذیبی اہمیت کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔
گذ شتہ روز جھاو کے علاقے لنجار اور کوہڑوسے تین بلوچ خواتین گل بانو اور اسکی بیٹی گنجل سمیت صائمہ کو اہلخانہ کے ساتھ زبردستی فوجی کیمپ منتقل کردیا گیا جو عالمی جنگی قوانین کے برخلاف ہیں
ترجمان نے مزید کہا کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے خواتین کو لاپتہ کرنے اور ان پر تشدد کے واقعات منظر عام پر آچُکے ہیں گزشتہ دنوں رخشان ناگ میں خواتین کی عصمت دری کے واقعات، آواران، جھاو، مشکے سے خواتین کے اغوا اور تشدد کے بعد شہادت کے واقعات بھی اب معمول کا حصہ بن چکے ہیں
پاکستان اپنے کاسہ لیس پارلیمانی قوم پرستوں کے ہمراہ اپنے ناپاک عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے غیر انسانی اور غیر اخلاقی اقدامات سے بلوچ قومی تحریکِ آزادی سے وابسطہ کارکنان اور لیڈران کو اپنی قومی آزادی کے موقف سے دستبردار کرانے کی کوششوں پر عمل پیراہے اور اس ظلم و ستم پر نام نہاد قوم پرستوں کی خاموشی ان کے گھناونے کردار کو آشکار کررہا ہے۔
ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں عالمی اداروں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ بلوچستان میں پاکستانی بربریت کا نوٹس لیکر بلوچ قوم کو پاکستانی مظالمُ سے چھٹکارہ دلانے میں اپنا کردار ادا کریں