بلوچستان کا بھگت سنگھ چیئرمین ذاکر مجید – حکیم واڈیلہ

328

بلوچستان کا بھگت سنگھ چیئرمین ذاکر مجید

تحریر: حکیم واڈیلہ

دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم

دنیا میں ہر ایک جنم لینے والا شخص کسی مقصد کو لیکر ہی آتا ہے لیکن عظیم شخصیات صرف وہی لوگ ہی کہلاتے ہیں جو اپنے مقاصد کی خاطر ہی اپنی زندگی کو جیتے ہیں اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے ہمیشہ ہی سماج میں انقلاب برپا کرتے ہیں۔ وہ اتنے عظیم اور مخلص ہوتے ہیں کہ انہیں موت کا خوف، لالچ اور مراعات بھی اپنی طے کردہ منزل اپنی پرکٹھن راستے سے ایک انچ بھی نہیں بھٹکا سکتا، کیونکہ وہ جس مقصد کے حصول کی خاطر زندگی کو قربان کرچکے ہوتے ہیں وہ انکا نظریہ، ایمان، شعور، انکی سوچ اور انکے کرشماتی کردار کا پہچان ہوتا ہے۔

اسی طرح ہندوستان میں جب مہاتما گاندھی نے انگریز سامراج کے خلاف نان کوپریٹیو موومنٹ کا اعلان کیا تو اس اعلان کو پورے ہندوستان میں کافی پذیرائی ملی، سرکاری و نیم سرکاری اداروں سمیت ہندوستان کے کسانوں اور طالب علموں نے بھی اس اعلان کی پیروی کی اور اس تحریک کا حصہ بنے۔ ان تمام لوگوں میں پنجاب سے تعلق رکھنے والا ایک کمسن بچہ بھی شامل تھا، جس نے اپنے اسکول کی کتابیں ہندوستان کی آزادی کے خواب کو پورا کرنے کی شوق میں جلا ڈالے اور بھرپور طریقے سے اس تحریک کا حصہ بن گئے۔

لیکن جس طرح سے گاندھی جی کی وہ تحریک ختم ہوئی اور لوگوں میں احساس کمتری پیدا ہوئی، وہ ایک الگ داستان ہیں جسے پھر کبھی بہتر انداز میں قلم بند کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہاں اُس ننھے سے بچے کے جذبات اور اسکے آنکھوں کے سامنے اسکے سپنے کو چکنا چور ہونے کے واقعات کو دیکھ کر شاید اسکے خاندان کے لوگ یہی سمجھ بیٹھے تھے کہ اب وہ اس راستے سے دور ہوچکا ہے اور شاہد ہی اب وہ دوبارہ کسی بھی طرح سے انقلاب اور آزادی کا خواب آنکھوں میں سجا سکے۔ لیکن شاید وہ انقلاب اپنےدل میں بسائے اپنے سماج کو پرکھ رہا تھا اور ایک ایسے وقت کا تعین کررہا تھا کہ جب وہ سینے میں چھپائے لاوے کو آگ کی شکل میں قبضہ گیر پر برسانا شروع کردے۔ وہ بچہ جسے آج دنیا، شہید بھگت سنگھ کے نام سے جانتی ہے۔ وہ ایک ایسے کردار کا مالک تھا۔ جس نے اپنا جینا، مرنا، اوڑھنا، بچھونا سب ہی اپنی قومی آزادی کی خاطر قربان کردیا تھا۔

بھگت کے بقول مجھے دھرتی ماں کے اندر اپنی ماں دکھائی دیتی ہے اور ایک لائق اور غیرت مند بیٹا کیسے اپنی ماں کی بے عزتی اور بے حرمتی دیکھ کر خاموش رہ سکتا ہے یا آنکھیں پھیر سکتا ہے؟ اسی سوچ اور فلسفے کی پیروی کرتے ہوئے، بھگت سنگھ نے سیاسی اور مزاحمتی جدوجہد کرکے نا صرف ہندوستان پر قابض برطانوی سامراج کو بے چینی اور خوف میں مبتلا کردیا تھا بلکہ بھگت نے ہندوستان میں موجود نوابوں، جاگیرداروں اور پیداگیر سیاستدانوں کو بھی ایک واضح اور سخت پیغام دے دیا تھا کہ کل کے آزاد ہندوستان میں کسی بھی کرپٹ سیاست دان، مذہبی ٹھیکیدار اور نوابوں کو عام عوام اور ہندوستان کے کسانوں اور مزدوروں کے استحصال کرنے پر بھرپور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بھگت اپنی ایمانداری اور مخلصانہ جدوجہد کی خاطر ہنستے ہوئے پھانسی پر چڑھ گئے اور سامراج اور اسکے حواری سمجھے کے شاید انہوں نے برصغیر کے اس نوجوان انقلابی اور اسکے ساتھیوں کو شہید کرکے خطے سے انقلاب کا خاتمہ کردیاہے۔

لیکن بلوچستان کے نوجوان بھگت سنگھ “چیئرمین ذاکر مجید” کے بقول “انقلابی کبھی مرتے نہیں بلکہ وہ امر ہوجاتے ہیں اور وہ کسی اور روپ اور رنگ میں کسی اور خطے میں پیدا ہوجاتے ہیں”۔ بلوچستان میں پیدا ہونے والا نوجوان بھگت بذات خود شہید بھگت سنگھ کا بہت بڑا پرستار تھا، جو اپنی ہر ایک بات میں بھگت سنگھ کی تعلیمات کا پرچار کرتا۔ وہ نوجوان بھگت بی ایس او آزاد کے سابقہ مرکزی رہنماء اسیر چیرمین ذاکر مجید کی صورت میں بلوچ دھرتی پر ابھر کر سامنے آئے۔ جو نا صرف تحریر اور تقریری بنیادوں تک ایک مکمل انقلابی ہیں بلکہ اس کا ہر ایک عمل انقلاب کی علامت ہے۔ وہ کافی واضح انداز میں بلوچ نیشنلزم کا پرچار کرتے۔ اپنی تقاریر، لیکچرز، سرکلز اور اپنی زندگی بھی بلوچیت کے اصولوں پر کاربند ہوکر جیتے۔ وہ ان چند ناموں میں سے ایک ہیں جنہوں نے زندگی کے مقصد کو حاصل کر کے اس ایمانداری اور سچائی سے عمل کا آغاز کیا تھا کہ ریاستی اداروں، فوج، بیوروکریسی، نام نہاد پارلیمانی سیاست دانوں اور مذہبی اور قبائلی بنیادوں پر بلوچ قوم کو تقسیم کرنے والے لوگوں کیلئے ایک نا قابل برداشت کردار بن چکے تھے۔

کیونکہ وہ صرف سنی سنائی باتوں پر نہیں بلکہ علمی ہتھیار سے لیس ہوکر ہر ایک سماجی، قبائلی، مذہبی اور پارلیمانی پر بحث کرتے اور ٹھوس اور واجب دلیل کی روشنی میں گفتگو کرتے، جس میں ریاست کو اپنی شکست کافی واضح انداز میں دکھائی دینے لگی تھی۔ وہ ریاست کو للکار کر کہتے تھے آپ کی ستر سالہ قبل مذہبی بنیادوں پر بننے والا ملک ہمیں، کسی بھی طور پر اپنی قومی تشخص کو برقرار رکھنے اور آزادی کو حاصل کرنے سے نہیں روک سکتی۔

ذاکر جان ہمیشہ قومی اداروں کو مضبوط کرنے کا درس دیتے اور وہ ہمیشہ ہی ریاستی اداروں کو بلوچ قومی تشخص کی تباہی اور بربادی کا ذمہ دار گردانتے اور کہتے کہ ہم مالک ہیں نوکر نہیں۔ اگر کوئی باہر سے بلوچستان میں آکر آپکو چوکیدار رکھتا ہے یا چپڑاسی بناتا ہے، تو وہ آپکا استحصال کررہا ہے آپکو غلامی کے اندھیروں میں دھکیل رہا ہے۔ آپ اس سرزمین کے مالک ہیں اور باہر سے آیا ہوا سامراج ہے۔ جو آپ سے آپکی شناخت چھین کر آپکو اندھیروں میں دھکیل رہا ہے۔ آپ کو انکا مقابلہ کرنا ہوگا، آپ کو متحد ہونا ہوگا، منظم ہونا ہوگا، قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور اپنے بنیادی حق بلوچ ریاست کی آزادی کی تحریک کو منزل تک پہنچانا ہوگا۔

ذاکر مجید کی جدوجہد اور جس طرح سے چیئرمین غلام محمد اور ساتھیوں کی شہادت کے بعد وہ نوجوانوں میں شعور پیدا کرنے کا عمل جاری رکھے ہوئے تھے، قبضہ گیر فوج اور اسکے خفیہ ادارے کافی پریشانی میں مبتلا ہوچکے تھے۔ انہیں ذاکر جان کا انداز بیان اور بلوچ نیشنلزم کی تعلیمات کے پرچار سے کافی ڈر اور شکست محسوس ہونے لگا تھا، جس کی وجہ ریاستی اداروں نے ۰۸جون۲۰۰۹ کو مستونگ سے چشم دید گواہوں کے سامنے انہیں اغواء کرکے لاپتہ کردیا اور ۹ سال کا طویل عرصہ گذرنے کے باوجود بھی کسی طرح کی کوئی خبر سامنے نہیں آئی۔

چیئرمین ذاکر جان کی جبری گمشدگی کیخلاف گزشتہ ۹ سالوں سے بی ایس او آزاد سمیت دیگر سیاسی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں احتجاج کرتی رہی ہیں، لیکن ان سب احتجاجوں اور کوششوں سے بڑھ کر انکی ہمشیرہ بانک فرزانہ مجید کی ۹ سالہ جدوجہد کی داستان ہے۔ وہ بہن جو کبھی اپنے پیارے بھائی کے آنکھوں کا تارہ تھی اور اپنے بھائی کے ساتھ ہر ایک غم اور خوشی کو بانٹتی تھی، وہ آج بھی دنیا کے سامنے اپنے بھائی سمیت ہزاروں لاپتہ بلوچ نوجوان، بزرگ ، خواتین اور بچوں کی بازیابی مطالبہ کررہی ہے۔ بانک فرزانہ مجید نے جس ہمت اور بہادری سے گذشتہ نو سالوں سے اپنا احتجاج جاری رکھا ہوا ہے، وہ آنے والی بلوچ نسلوں سمیت دنیا کے تمام مظلوم اقوام اور بہادر ماوں اور بہنوں کیلئے مشعل راہ بنے گی ۔ کیونکہ بلوچستان سے اسلام آباد تک کا طویل لانگ مارچ ہو یا سالوں سال پریس کلبوں کے سامنے احتجاجی مظاہرے ہوں، اقوام متحدہ، سمیت دنیا کے تمام انسانی اداروں کے سامنے لاپتہ بلوچوں کے کیس رکھنے کا معاملہ، یہ سب عوامل اپنے آپ میں ایک تاریخی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس تمام عرصے میں وہ اپنے بھائی کی بازیابی کیلئے دنیا سے ٹکراتی نظر آئی ہیں اور آج بھی وہ اپنا جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے۔ اس امید کے ساتھ کہ بلوچستان کا بھگت سنگھ چیرمین زاکر مجید اپنے ہزاروں لاپتہ ساتھیوں سمیت اس شیطانی قید سے آزاد ہو جائے اپنی تحریر کا اختتام رام پرساد بسمل کی ان اشعار سے کرتا ہوں۔

“وقت آنے دے بتا دیں گے تجھے اے آسمان
ہم ابھی سے کیا بتائیں کیا ہمارے دل میں ہے

کھینج کر لائی ہے سب کو قتل ہونے کی امید
عاشقوں کا آج جمگھٹ کوچہِ قاتل میں ہے

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے