بی ایچ آر او اور ایچ آر سی بی دیگر 25 اضلاع سے ڈیٹا جمع کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ۔
جبری گمشدہ ہونے والے متاثرین میں اب عبدل حئی ولد جمعہ خان بھی شامل ہیں۔21 مئی کو مچ شہر سے سیکیورٹی فورسز نے انہیں غائب کردیا تھا. وہ کوہ باش ریستوران میں بیٹھے تھے جب 2 ویگو گاڑیاں اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کے ساتھ ساتھ 20 سے زائد فوجی اہلکاروں نے ریستوران کو گھیرا کر کے عبدل حئی کو اپنے ساتھ لے گئے.
35سالہ عبدالحئی کواپنے ساتھ لے جانے سے پہلے اس آنکھ میں پٹی ڈالی گئی اور اس کے ہاتھ رسی سے باند دیے گئے تھے ۔وہ ایک کسان تھا تھا اور اپنی متاثرہ خاندان کا واحد خود کفیل تھا ۔اس سے قبل اس خاندان کے دیگر متعدد افراد کو ماروائے عدالت گرفتار کرکے لاپتہ کردیا تھا ۔ 2010 کو اس کے بھائی علی شیر کرد کو بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے ماروائے عدالت گرفتار کرکے لے گئے تھے بعد میں اس کی مسخ شدہ لاش برآمد ہوئی۔
مئی کے مہینے میں مختلف واقعات میں 18لوگ قتل ہوئے ۔جس میں دس کو ٹارگیٹ کلنگ میں قتل کردیا گیا او چار مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئی جبکہ سلمان احمد بادینی کو سیکورٹی فورسز نے مقابلے میں قتل کیا ۔ سلمان احمد بادینی مبینہ لشکر جنگوی بلوچستان کا سربراہ تھا ۔
مزید براں ، دولاپتہ افراد اعظم داد شاہ اور بزو بگٹی کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئی ۔ اعظم داد مالار ضلع آواران کا رہاشی تھا اس کی مسخ شدہ لاش حب چوکی ضلع لسبیلہ میں روڈ کے کنارے سے پانچ مئی 2018کو برآمد ہوئی ۔ اعظم داد کو سیکورٹی فورسز نے 25اپریل 2016کو جناح انٹرنیشنل ائیرپورٹ کراچی سے ماروائے عدالت گرفتار کرکے لاپتہ کردیا تھا ۔ جبکہ بزو بگٹی کی مسخ شدہ لاش زین کوہ ضلع ڈیرہ بگٹی سے برآمد ہوئی۔ بزو بگٹی کو سیکورٹی فورسز نے 24جنوری 2018کو فوجی آپریشن کے دوران واسق بگٹی اور حضور بگٹی کے ہمراہ گرفتار کرکے لاپتہ کردیا تھا جبکہ واسق اور حضور کے بارے تاحال کوئی معلومات حاصل نہیں ہوئی ہے ۔
ایک اور واقعے میں ایک خواتین اسکول ٹیچر کو نامعلوم مسلح افراد نے دشت ضلع کیچ میں قتل کیا ۔بی بی بلقیس کو ان کے گھر میں قتل کیا گیا ۔ ان دومہینوں میں خاتون کو نامعلوم مسلح افراد کی جانب سے قتل کرنے کی دوسرا واقع ہے ۔اس سے قبل اسی ضلع میں جمیلہ ولد صوالی کو اپریل کے مہینے میں نامعلوم مسلح افراد نے ان کو انہی کے گھر میں قتل کیا ۔قتل کرنے کے اسباب اور قتل کرنے والے کے بارے میں ہنوز کوئی معلومات حاصل نہیں ہوئی ہے ۔ جبکہ ایک اور خواتین ناز گل اسی سال کے چھ اپریل کو قانون نافذ کرنے والوں کی حراست میں انتقال کر گیا ۔اس کو گرفتار کرکے مشکے میں پرائیوٹ گھر میں قید کیا گیا تھا ۔
بلوچستان میں خواتین اور بچوں کی جبری گمشدگیاں کوئی نیا سانحہ نہیں ہے لیکن خواتین کو ٹارگیٹ کلنگ میں قتل کرنا رجحان حالیہ دنوں میں شروع ہوئی ہے۔
حکومت کی جانب سے میڈیا اور انسانی حقوق کے تنظیموں کودورہ کرنے اور واقعات کو رپورٹ کرنے کی اجازت حاصل نہیں ہے ۔ بلوچ قوم پرست اور وفاق حکومت کے درمیان تضادات نے بلوچستان کو جنگ زدہ علاقہ بنادیا ہے ۔بلوچستان کے مسئلے پر بلوچ قوم پرست اور وفاقی حکومت ایک دوسرے مورد الزام ٹھہراتے ہیں ۔
پاکستان ملٹری نے بلوچ انسرجنسی کو ختم کرنے کے لیے 2004ء سے جبری گمشدگی کے پالیسی اپنائی ہے ۔2004ء سے ہزاروں کی تعدد میں بلوچ سیاسی کارکنان ، شاعر، طلباء، انسانی حقوق کے کارکنان اور دیگر شعبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد غائب کردیے گئے ۔پاکستانی سیکورٹی فورسز لوگوں کو گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کرکے مہینوں ان کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔
2009ء میں اس وقت حالات کی خرابی میں شدت پیدا ہوئی جب پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے تین بلوچ قوم پرست رہنما غلام محمد بلوچ ،لالا منیر بلوچ اور شیر محمد بلوچ کو تربت شہر سے تین اپریل 2009ء کو گرفتار کرکے لاپتہ کردیا ۔ ایک ہفتے کے اندر 9اپریل کو ان کے مسخ شدہ لاش تربت کے مضافات سے برآمد ہوئے ۔
یہ واقعہ بلوچستان میں پاکستان ملٹری کی مشہور آپریشن مارو اور پھینکو کا آغاز تھا ۔ جس میں سیاسی کار کنان ، صحافی ، استاتذہ، طلبا ء رہنما اور انسانی حقوق کے کارکنان ماروائے عدالت گرفتار کیے گئے اور بعد میں ان کے مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئے ۔