ایران میں مظاہروں کے دوران سکیورٹی فورسز کے دو اور پولیس کے تین اہلکاروں کے قتل کے الزامات کے تحت صوفی برادری سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کو پھانسی دے دی گئی ہے۔
ثالث بی نامی اس شخص کو پیر کے روز پھانسی دی گئی۔ ایرانی خبر رساں ادارے اِسنا کے مطابق ثالث کو تہران کے قریب واقع البروز صوبے کے علاقے کاراج کی ایک جیل میں پھانسی چڑھایا گیا۔
حالیہ کچھ روز میں سوشل میڈیا پر ثالث بی کو دی جانے والی سزائے موت پر شدید تنقید کی جا رہی تھی۔ سوشل میڈیا صارفین کا کہنا رہا ہے کہ 51 سالہ ثالث بی پر صاف اور شفاف انداز سے مقدمہ نہیں چلایا گیا۔
ایرانی استغاثہ کے مطابق ثالث بی پر الزام ثابت ہوا تھا کہ اس نے رواں برس فروری میں تہران میں صوفیوں کے ایک مظاہرے کے دوران ایک بس پولیس اور سکیورٹی اہلکاروں پر چڑھا دی تھی، جس کے نتیجے میں پانچ سکیورٹی اہلکار ہلاک جب کہ دیگر 30 زخمی ہو گئے تھے۔
اس مظاہرے میں شریک صوفی برادرہڈ تنظیم سے وابستہ افراد کے ان مظاہروں کے دوران قریب تین سو افراد کو حراست میں لیا گیا تھا۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق ثالث بی نے گرفتاری کے بعد اپنے جرم کا اعتراف کیا تھا، تاہم بعد میں اس کا موقف تھا کہ اسے جبری طور پر اقبالِ جرم کے لیے مجبور کیا گیا۔
عینی شاہدین کا اس بارے میں ایک موقف یہ بھی رہا ہے کہ حملہ آور بس کا ڈرائیور ثالث بی نہیں تھا بلکہ کوئی اور شخص یہ گاڑی چلا رہا تھا۔ ثالث بی کے وکیل کی جانب سے سزائے موت کے خلاف دائر کی جانے والی نظرثانی کی درخواست مسترد کر دی گئی تھی اور سزائے موت کو برقرار رکھا گیا تھا۔
واضح رہے کہ ایرانی صوفی یا درویش کہلانے والی برادری شیعہ مسلمانوں پر مبنی ہے مگر ان کے عقیدے ایرانی شیعہ اکثریت سے قدرے مختلف ہیں۔ یہ برادری ایرانی سرکاری مذہبی رہنماؤں کے احکامات کو بھی تسلیم کرنے سے گریز کرتی ہے۔ اسی تناظر میں صوفیوں اور ایرانی قدامت پسند قیادت کے درمیان کشیدگی بھی دیکھی جاتی ہے۔