استاد صباء دشتیاری – ساچان بلوچ

581

استاد صباء دشتیاری

تحریر : ساچان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم

قومی آزادی اور خوشحالی کسی سماج کا احترام ٹہرائی جاتی ہے، ہر باشعور انسان اپنی آزادی کے لیئے جدوجہد کرتا ہے۔ شعوری طور پر غلامی کے خلاف لڑنے والےاقوام قابض کا ساتھ نہیں دیتے بلکہ خندہ پیشانی کے ساتھ اپنی راستوں میں حائل رکاوٹوں اور مشکلات سے لڑتے ہیں۔ جدوجہد کے اصولوں کو سمجھ کر، اس پر چلنے والے لوگ قابل قدر ہوتے ہیں۔ اس لیئے اس نظریے کو ماننے والے لوگ جوق درجوق تحریک میں شامل ہوتے ہیں اور قربانی کے بغیر کسی کو آزادی نہیں ملتی ۔ آزادی بے پناہ قربانی اور طویل جدوجہد کا تقاضہ کرتی ہے۔ انہی باتوں کو ضامن بناکر بلوچ قومی تحریک کے لیڈروں اور کارکنوں نے شہادت کا رتبہ حاصل کرکے بلوچ قوم کو یہ پیغام دیا ہے کہ تاریخ گواہ ہے کہ ایسے حربوں سے آزادی کی تحریکوں کو کمزور نہیں کیا جاسکتا بلکہ ایسے حربوں سے قومی تحریکوں کو جلاملتی ہے۔

دانشوروں کا کردار قومی تحریکوں میں راہشون کا ہوتا ہے اور وہ ہر تحریکوں میں بطور پالیسی ساز اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ دنیا میں ہر کہیں جب قبضہ گیریت قومی تحریک کی مزاحمت اور قومی شعور کے پھیلاؤ کو روکنے میں ناکام ہوتی ہے تو اس قوم کے دانشوروں اور دوسرے شعبہ ہائے زندگی کے اہم شخصیتوں پر وار کرکے شہید کرتا ہے۔ اسی طرح پاکستان کی بربریت سے کوئی دانشور، وکیل، صحافی یا استاد محفوظ نہیں ہے۔ بلوچ قومی تحریک میں ایک ایسا دانشور جس نے اپنی پوری زندگی بلوچی و بلوچیت اور بلوچستان کے لیئے وقف کردیا، وہ شخص استاد صباء دشتیاری ہے۔

واجہ نے اپنی ابتدائی تعلیم عیسیٰ جمال پرائمری اسکول سے حاصل کی، میٹرک اوکھائی میمن اسکول سے کی اور پھر ایس ایم کالج سے کامرس مکمل کیا، خانہ فرہنگ ایران کے کراچی سے چار سال فارسی زبان میں تعلیم حاصل کی 1974 سے 1980تک کراچی میں اسکول ٹیچر رہے، اسی دوران پی ایچ ڈی کے لیئے کراچی یونیورسٹی میں رجسٹرڈ ہوئے اور بلوچستان میں لیکچرار مقرر ہوئے، شہید نے اردو ادب نویسی اور شاعری آٹھویں جماعت سے شروع کی، وہ سید ظہور شاہ ہاشمی سے بہت متاثر تھے۔ اس کا مطالعہ کیئے بغیر نہیں رہتے تھے۔ واجہ نے نثار احمد بلوچ، واجہ واحد بلوچ اور غلام فاروق بلوچ کے ہمراہ مہتاک بلوچی لبزانک شروع کردی۔

واجہ صباء دشتیاری بلوچی زبان کے محقق و تخلیق کار تھے، بلوچی زبان کو پروان چڑھانا ان کا نصب العین تھا۔ انہوں نے بیس سے زیادہ کتابیں لکھیں۔ کئی کتابوں اور اخباروں میں تحریریں لکھی، ان کی ادبی صفحات سے وابستگی کافی عرصے تک رہی، ان کی ادب دوستی اور ملنساری آئینے کی طرح صاف تھی۔ انہوں نے بلوچی ادب کو صرف کتابوں تک محدود نہیں کیا بلکہ اس کی کوشش و جہد بلوچی زبان کے رسم الخط کو استوار کرناتھا۔ کسی بھی قوم کےلیئے ادب اس کے لیئے سفارتی، صحافتی و تاریخی ورثے کی حیثیت سے کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔ قوموں کی بقا و حیات ان کے ادب و تاریخ کے جاوداں ہونے سے ہوتا ہے۔ جس طرح اگر بلوچ قوم میں سے اس کے ادب کونفی کیا جائے، تو اس کی تاریخ نامکمل رہ جاتی ہے۔ صباء دشتیاری نے ادب کو قوم کا لازمی جز سمجھ کر بلوچی زبان پر تحقیق کرکے بے شمار خدمات سر انجام دیں۔ قوم اور اسکی حالت کو سمجھنے کے لیئے اسکے ادب کا مطالعہ ضروری ہے۔ ادب کو توانا بنانے کے لیئے دوسرے قوموں کے ثقافات و تاریخ کا مطالعہ بھی ضروری ہوتا ہے۔ جن سے ثقافتی و ادبی تبدیلیاں آجاتی ہیں۔ صبا نے بلوچی ادب کی خاطر فارسی، انگریزی اور عربی ادب کا مطالعہ کیا۔ جو بلوچی ادب میں فائدہ مندثابت ہوئی۔

صبا کی سیاسی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں فلسفے کے روح کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اس کی جدوجہد جبر و ظلمت کی بد ترین ردعمل کے باوجود پختہ دکھائی دیتی ہے۔ ریاست جس شدت سے بلوچ قوم پر ظلم و جبر کرتا رہا، تو صبا کی آواز میں اسی طرح گرج بڑھ جاتا ہے۔ جس طرح سقراط موت کو برحق سمجھ کر حقیقت سے راہ فرار اختیار کرنے کے بجائے موت کو تسلیم کردیتا ہے، تو اسی طرح صباء بلوچ قوم پر ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کرکے ایک خوشحال و آرام کی زندگی کو ترک کرکے ریاستی ردعمل کا شکار بن جاتا ہے اوراپنی سرزمین شال کے گود چلتن کے پیچھے لہو میں ڈوبتی ہوئی سورج کی طرح اپنی زندگی قربان کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ صباء کو آزادی اور سچائی پر عقیدت کی حد تک یقین تھا، اس لئے صباء اُس وقت بھی ظلم کے خلاف آواز بلند کررہا تھا، جب بلوچستا ن میں حق بات کی سزا موت تھی۔

جب وہ بلوچستان میں لیکچرار مقرر ہوئے تو اسے بلوچستان کے مسائل کو قریب سے جائزہ لینے کا موقع ملا، انہوں نے بلوچستان کے مسائل کو شعوری طور پر محسوس کیا۔ صبا دشتیاری ریاستی اداروں کے ساتھ پاکستان کے دانشوروں، ادیبوں اور صحافیوں کے بھی بڑے نقاد تھے اور انہیں بلوچستان کی موجودہ صورتحال کا ذمہ دار سمجھتے تھے۔’

پروفیسر صبا دشتیاری کا موقف تھا کہ پاکستان کے دو مسئلے ایسے ہیں جس کو مقتدر حلقے اور سول سوسائٹی سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ایک یہ کہ بلوچستان اور پاکستان کا رشتہ ایک قبضہ گیر اور غلام کا رشتہ ہے۔ دوسری بات یہ کہ یہاں کا دانشور ذہنی طور پر آلودگی کا شکار ہے، اسٹیبلشمنٹ جو کچرا ڈالتی ہے اسی کا اظہار وہ ہر جگہ کرتا ہے۔

بلوچستان میں جاری صورتحال نے ان کے خیالات کو اور بھی بھڑکا دیا تھا اور وہ لاپتہ بلوچوں کی رہائی کی جدوجہد کا عملی حصہ بن گئے تھے۔ وہ ان خاندانوں کے مظاہروں اور بھوک ہڑتالوں میں شریک ہوا کرتے تھے۔

یکم جون 2011 کا دن بلوچی ادب و سچ کے لیئے قیامتِ صغریٰ تھا۔ ٹی وی کی خبر نے پوری بلوچ قوم کو سر پٹخنے پر مجبور کر دیا۔ خبر موصول ہوئی کہ پروفیسر صبا دشتیاری کو کوئٹہ میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے شہید کر دیا۔ جیسے دن کی روشنی ماند پڑ گئی۔ یہ ان کی شہادت نہیں، ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم نے ان سے کچھ نہیں سیکھا کہ انہیں باور کرا سکیں کہ ہم بیورکریٹک ادب کو مسترد کرکے قومی ادب کو ساتھ لے کر چلیں۔

صبا دشتیاری کی وفات پر ان کے ایک دوست نے اپنے خیالات کا اظہار شیخ ایاز کے ایک سندھی شعر میں یوں کیا۔

“چھا توں ساز کھے ڈھائے سْر کھے مٹائے سگھندیں
توڑی چاھیندیں سْر تنجھے وس میں ناھی”
یعنی
“کیا تم ساز کو توڑ کر سْر کو مٹا سکو گے
تمہارے چاہتے ہوئے بھی سْر تمہارے بس میں نہیں”