آٹھ جون اور بلوچ لاپتہ افراد
ظفر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
دنیا کے جس بھی کونے میں جائیں وہاں کے باشندے چند ایسے ایام کو قومی طور پر چنتے ہیں، جس دن ہر سال لوگ اکھٹے ہو کر آپس میں خوشیاں بانٹ سکیں یا قومی تہوار منائیں لیکن ایسے عظیم ایام کے لیئے قوموں کو بے دریغ قربانیاں دینی پڑتی ہے۔ انہی قوموں نے اپنے آباؤ اجداد کی قربانی دیکھی ہوئی ہوتی ہے۔ جن میں بنگلہ دیش کے بنگال قوم یا الجزائر و ویتنام یا دیگر بہت سی ایسی اقوام ہیں۔ ایک قوم کو غلامی کی زندگی سے نکالنے اور خوشحال زندگی تک پنہچنے کے لیئے کافی پیچیدگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ایک آزاد زندگی بسر کرنے کے لیئے صدیوں تک جدوجہد کرنا پڑتا ہے، ایک نسل کے صفحہ ہستی سے مٹنے کے بعد دوسرے آنے والے نسل کو ایک نئی زندگی ملے گی، سابقہ نسل کی قربانی کی روداد سے ایک نیا زندگی نصیب ہوگی۔
دنیا میں چند ایسے مخصوص ایام ہیں، جب لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر خوشیاں مناتے ہیں لیکن بلوچ قوم ان تمام خوشیوں سے محروم ہیں، اسی طرح بلوچ قوم آٹھ جون کو یوم اسیران بلوچاں کی یاد میں مناتے ہیں، گذشتہ ستر سالوں سے بلوچ قوم اپنی قومی بقا اور قومی آزادی کے لیے جدوجہد کرتے آرہے ہیں۔
درجہ بالا جدوجہد کے دورانیے میں بلوچ قوم کے فرزنداں نے بے دریغ قربانیاں دی ہیں، ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔ جب قابض پاکستان نے 27مارچ 1948 ء کو بزور شمشیر بلوچستان پر قبضہ کرتے ہوئے، بلوچ قوم کو غلام بنایا، اسی ہی دن سے بلوچ فرزندان نے آغا عبدالکریم کی قیادت میں قابض کے قبضے کے خلاف جدوجہد کا آغاز کرتے ہوئے چلے آرے ہیں۔ سرلٹھ سے لیکر مغربی بلوچستان تک قابض پاکستان اور قابض ایران کے خلاف مغربی بلوچستان میں واجہ رحیم زرد کوہی و دیگر عظیم رہنماؤں کی قیادت میں قابض ایران کے خلاف برسرِیپکار رہے۔
قبضہ گیر پاکستان ہو یا ایران ہو، دونوں کا کردار و عمل مظلوم اقوام کے لیئے ایک جیسا تھا، جب بھی بلوچ قوم کے فرزاندن نے قومی بقا اور بلوچ ڈیھ کی آزادی کیلئے آواز بلند کیا ہے تو اُسی وقت پاکستان کے آئی ایس آئی و ایم آئی نے بلوچ قوم کی آواز کو دبانے کے لیئے مختلف حیلے وبہانے زیر استعمال لاتے ہوئے طاقت کا استعمال کیا ہے اور دوسری طرف مراعات کی پیش کش کی گئی ہے، لیکن ہروقت بلوچ فرزندان نے ریاستی مراعات اور لالچ کو لات مارکرکوڑے دان میں پھینکا ہے اور قومی بقا و قومی آزادی کی جدوجہد کو برقرار رکھا ہے۔ اس عمل کو ریاستی اداروں اور نام نہاد پارلیمانی باجگزاروں نے اپنے لیئے موت کے مترادف سمجھا ہے۔
پیر مرد ماماقدیر بلوچ، فرزانہ مجید، سمی بلوچ، علی حیدر بلوچ نےکوئٹہ سے اسلام آ باد تک لانگ مارچ کرتے ہوئے ایک تاریخ ریکارڈ کیا لیکن ہنوز ذاکر مجید اور دیگر بلوچ اسیران کی بازیابی عمل میں نہیں آئی۔ بلوچ قوم اس دن کی مناسبت سے دنیا کے دیگر اداروں تک اپنا قومی آواز پہنچانا چاہتا ہے۔
اسی طرح چیئرمین زاھد بلوچ، ڈاکٹر دین محمد بلوچ، حاصل حسرت بلوچ، دولت خان، محمد رمضان بلوچ، صغیر بلوچ، ثناللہ بلوچ، نصیر احمد، رفیق بلوچ، حسام بلوچ و دیگر ہزاروں ورکرز و کیڈرز لاپتہ ہیں۔
درجہ بالا اسیران کی بازیابی کیلئے خاندان والوں سے لیکر ہر باشعور انسان دوستوں نے ماما قدیر کے ساتھ ملاقات کی اور بلوچ مسنگ پرسنز کیمپ کا دورہ کیا۔
2014 کو بلوچ طلباء تنظیم بی ایس و آزاد کے چیئرمین زاھد بلوچ کو ریاستی اہلکاروں نے دن دھاڑے بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ سے لوگوں کے سامنے گرفتار کرتے ہوئے، لاپتہ کردیا۔ لاپتہ زاھد بلوچ کی گرفتاری کے خلاف بی ایس او آزاد کے سینٹرل کیمٹی کے ممبر 46 دن بھوک ہڑتال کرتے رہے۔ اسی دوران بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدلمالک بلوچ نے کیمپ کا دورہ کرتے ہوئے لطیف جوھر سےملاقات کرتے ہوئے دورانِ ملاقات زاھد بلوچ کی بازیابی کا وعدہ کیا مگر موصوف کا وعدہ وعدہ ہی رہاـ
ڈاکٹر مالک کے علاوہ بین القوامی انسانی حقوق کے اداروں کے کافی منت و سماجت اور طفلی تسلیوں کے بعد لطیف جوہر نے اپنا بھوک ہڑتال ختم کردیا، لیکن انسانی حقوق کمیشن کے اداروں اور زمہ داران نے بھی اپنا وعدہ وفا نا کیاـ
زاھد بلوچ کی گمشدگی کے چند دن بعد نواب خیر بخش مری و دیگر لیڈران نے لطیف جوھر کو بھوک ہڑتال کرنے سے منع کردیا، حتٰی کی میر علی ٹالپر عبدلوہاب بلوچ و دیگر لوگوں نے شرکت کی تھی، بلوچ مسنگ پرسنز کے معاملے پر ریاست کی جانب سے روزِ اول سے ہی پابندیاں عائد تھیں۔ ریاست کے وحشی اہلکاروں نے کئی انسان دوست لوگوں کو بھی اپنے من مانی کا نشانہ بنایا۔
بلوچ مسنگ پرسنز کا معاملہ بلوچستان ہائی کورٹ سے لیکر سپریم کورٹ تک پہنچا لیکن تمام جج صاحباں نے اس سنگین معاملےپر لیت و لال سے کام لیا۔ حسبِ روایت بلوچستان کورٹ کے سابق چیف جسٹس امان اللہ یاسین زئی ہو یا قاضی محمد عیسٰی فائز اور سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے لیکر جناب ثاقب نثار تک ہر ایک نے بلوچ مسنگ پرسنز کے معاملے پر مختلف بینچز تشکیل دیئے۔ حتٰی کہ جناب جاوید اقبال صاحب بھی درجہِ بالا جج صاحباں کی فہرست میں شامل ہیں، لیکن آج تک کسی بلوچ اسیر کی بازیابی عمل میں نہیں آئی۔ جج صاحباں کا وعدہ صرف فائلوں تک محدود رہی، لوگ انصاف رسانی کیلئے جج صاحباں کے پاس چلے جاتے ہیں، جب ججز چور بن جائیں یا بے بس و لاچار بن جائے اور دیگر اداروں کو جواب طلبی کے بجائے خود مجاز افسران کے سامنے، جواب دہ ہوجائیں پھر میرے خیال میں وہاں انصاف مانگنا بھی اپنے ذات سے دھوکے کے زمرے میں آتا ہے۔