بلوچ ریپبلکن اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے آواران میں غریب مکینوں کے جونپڑیوں کو جلانے و لوگوں کو بے گھر کرنے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اس عمل کو پاکستانی فوج کی سفاکیت و درندگی قرار دیا۔
بی آر ایس او کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہےکہ پاکستانی فوج نے بلوچستان کے ضلع آواران کے علاقوں درمان بھینٹ اور جھکرو سمیت مختلف علاقوں کے مکنیوں کے گھروں کو نذرآتش کر کے انہیں آرمی کیمپ کے عقب میں جونپڑیاں بنانے کی ہدایت کی ہے۔
غریب و بے گناہ لوگوں کےجونپڑیوں کو جلاکر انہیں علاقہ چھوڑنے یا آرمی کیمپ کے قریب رہائش اختیار کرنے کی ہدایت کرنا ریاستی فورسز کی بدترین دہشتگردی ہے جس کی ہم سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ آواران بلوچستان کا پسماندہ ترین ضلع ہے جہاں لوگوں کو زندگی کے بنیادی سہولیات تک میسر نہیں، جبکہ مشکل سے لوگ جونپڑیاں بناکر اپنی زندگی کے پہہ کو چلانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ریاستی آرمی کی جانب سے انکے گھروں کو مسمار و نذرآتش کرکے انہیں بے گھر کردیا جاتا ہے، لوگوں کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ وہ اپنی رہائش کے لیے دیگر اتنظامات کرسکیں، اور لوگ کھلے آسمان تلے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
پاکستانی قابض آرمی کی وحشیانہ کاروائیوں کی وجہ سے آواران، ڈیرہ بگٹی،کیچ اور کوہلو سمیت بلوچستان بھر سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں اور اپنے آبائی علاقوں کو چھوڑ کر بلوچستان و سندھ کے مختلف علاقوں میں درپدری کے زندگی گزار رہے ہیں۔
بی آر ایس او کے ترجمان نے مزید کہا کہ عام انتخابات کے قریب آتے ہی بلوچستان بھر میں پاکستانی مظالم میں انتہائی حد تک اضافہ کیا گیا ہے تاکہ لوگوں میں خوف و حراس کا ماحول پیدا ہو تاکہ نام نہاد ریاستی انتخابات کامیابی سے ہمکنار ہو، لیکن ریاستی اداروں کو 2013 کے عام انتخابات کے نتائج نہیں بھولنے چاہیئے، جہاں بلوچستان کے باسیوں نے پاکستانی انتخابات کا بائیکات کرتے ہوئے یہ ثابت کردیا کہ بلوچ قوم کو پاکستانی نام نہاد انتخابات سے کوئی سروکار نہیں، کیونکہ بلوچ قومی مسائل کا حل پاکستانی پارلیمنٹ میں نہیں بلکہ ایک آزاد بلوچ ریاست میں پیوست ہے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ بلوچ قوم گزشتہ انتخابات کی طرح اس بار بھی ریاستی نام نہاد انتخابات کے عمل میں شرکت کرنے سے گریز کرتے ہوئے ووٹ نہ دیکر دنیا کو باور کرائیں کہ بلوچ ایک قوم ہے جسکی اپنی جداگانہ شناخت و ایک عظیم سرزمین ہے، جو پاکستانی غلامی سے انکاری ہے اور اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ کیونکہ پاکستانی پارلیمنٹ میں بلوچ قومی آزادی کا حل تلاش کرنا ایک جھوٹ ہے، پاکستانی پارلیمنٹ میں بلوچوں کو مزید غلام بنانے اور بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار کی قانون سازی کی جاتی ہے۔
بی آر ایس او کے ترجمان نے مزید کہا کہ پاکستانی خفیہ اداروں نے گزشتہ انتخابات میں اپنے من پسند کھٹ پتلیوں کو بلوچستان کے پارلیمان تک رسائی دی اور ہر طرح کے مراعات سے نوازا تاکہ انکی مدد سے بلوچستان کے وسائل کو لوٹنے میں آسانی ہو، اور پارلیمنٹ میں بھیٹے چند ضمیر فروشوں نے بلوچستان کے وسائل کا چین و پنجاب سے سودہ کرلیا۔ لیکن پھر بھی پنجابی ریاست انکے اس عمل سے مکمل طورپر مطمئن نہ ہوسکی، اور اسی لیے پاکستانی خفیہ اداورں نے بلوچستان میں ایک نئی پارٹی ( بلوچستان عوامی پارٹی، باپ) کے قیام کو عمل میں لایا، تاکہ بلوچستان کے وسائل کو لوٹنے، بلوچ قوم کی آواز کو دبانے اور بلوچ قومی جدوجہد کو کچلنے میں انہیں کسی قسم کے رکاوٹ کا سامنا نہ رہے۔
بلوچستان میں کون حکومت چلاتا ہے اب یہ مزید راز نہیں رہا، بلکہ اب پوری دنیا اس بات سے واقف ہے کہ بلوچستان حکومت محض کھٹ پتلی ہے، اور پاکستانی خفیہ ادارے جسے چائیں بلوچستان کا وزیرِ اعلٰی بنائیں اور جسے چائیں پابندسلاسل و قتل کرسکتےہیں۔
ترجمان نے مزید کہا کہ پاکستانی عسکری ادارے بلوچستان میں گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصہ سے نہتے و پُرامن لوگوں کے خلاف طاقت کا استعمال کررہے ہیں، ہزاروں کے تعداد میں پُرامن سیاسی کارکنوں، ادیبوں، طلبا سمیت مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کو اغوا و شہید کیا جاچکاہے لیکن پھر بھی بلوچ قومی تحریک اپنی منزل کی جانب روا داں ہے۔ کیونکہ طاقت سے محکوم اقوام کی آواز کو زیادہ دیر تک دبائے رکھنا ممکن نہیں۔