چیختا ہوا راسکوہ
حکیم واڈیلہ
دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم
قابض ریاست اور مقبوضہ اقوام کے درمیان پیدا ہونے والے حالات واقعات، نفرت ، جدوجہد اور اس جدوجہد کو کاؤنٹر کرنے کیلئے استعمال کی جانی والی ریاستی سازشوں کوسمجھنے اور پرکھنے کیلئے ضروری ہے کہ تمام محرکات اور پہلووں کا باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے اور ان پہلووں میں پوشیدہ رازوں سے آشنا ہوکر حقائق کی تلاش کی جائے۔
۲۸ مئی ۱۹۹۸ کا دن بھی بلوچستان کی تاریخ میں پاکستان کی جانب سے جاری بلوچ نسل کشی کی پوشیدہ رازوں کا ایک باب ہے۔ پاکستانی تاریخ دان اور سیاست دان ۲۸ مئی کو اپنی تاریخ کا ایک بہترین باب قرار دیتے ہیں، انکے بقول انہوں نے اس دن اپنے ہمسایہ ملک ہندوستان سمیت دنیا کی تمام طاقتوں کے سامنے اپنی جوہری طاقت کا مظاہرہ کرکے خود کو دنیا کے مضبوط ترین ممالک میں شامل کروا دیا اور اب وہ دنیا کے جوہری ہتھیاروں کے مقابلے میں شامل ہوچکے ہیں اور انہیں لاحق خطرات سے کافی حد تک نجات حاصل ہوچکی ہے۔
پاکستان نے ۲۸ مئی کو نعرہ تکبیر کا نعرہ بلند کرتے ہوئے، بلوچستان کے علاقے چاغی میں راسکوہ کے پہاڑی سلسلوں میں اپنے جوہری ہتھیاروں کے تجربے کیئے جس کی حمایت پاکستانی فوج، سیاست دانوں، سائنس دانوں ، بیوروکریٹس اور صحافیوں نے بھرپور انداز میں کی تھی، لیکن حیران کن طور پر بلوچستان کا چناؤ کرتے وقت کسی نے بھی بلوچ قوم کی رضا مندی اور منشاء پوچھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور بلوچ قوم کی مرضی کے بغیر بلوچستان کے سرمئی پہاڑوں کا انتخاب کرنا اور ان پہاڑی سلسلوں کے اردگرد مقیم آبادیوں کی خاطر کسی بھی طرح کی موثر پلاننگ کے بغیر اپنے شیطانی عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا۔ بلوچ قوم نے روز اول سے ہی ان دھماکوں کی مخالفت کی اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر کافی تشویش کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔
پاکستانی قوم جہاں بیس سال قبل ۲۸ مئی کو خوشیاں منا رہی تھی اور ہندوستان کو جنگ کی دعوت دینے میں مصروف تھے، تو دوسری جانب بلوچ قوم اور بلوچ سرزمین غم سے نڈھال تھی اور ہر ایک آنکھ اشکبار تھی کیونکہ راسکوہ کی چیخیں صرف چاغی یا خاران تک ہی محدود نہیں تھیں، بلکہ وہ صدائیں بلوچستان بھر میں گونج رہیں تھیں اور بلوچستان کے تمام تر پہاڑ جو بلوچوں کی محفوظ پناہ گاہیں بھی جانی جاتی ہیں پریشان تھیں۔
پاکستانی حکمران ۲۸ مئی کو یوم تکبیر کا نام دیکر ہر سال اپنے جوہری ہتھیاروں کے کامیاب تجربے کی خوشیاں مناتے آرہے ہیں۔ دوسری جانب راسکوہ اور اردگرد کے بلوچ آبادیوں میں لوگوں میں طرح طرح کی بیماریاں گذشتہ بیس سالوں سے جنم لے رہی ہیں۔ جس میں کینسر، جلد کی امراض اور پیدائشی طورپر ذہنی اور جسمانی طورپر بچوں کی پیدائش جیسی بیماریاں کافی عام ہیں۔
بلوچ قومی جدوجہد سے منسلک سیاسی جماعتیں، لیڈران، کارکنان اور مختلف این جی اوز نے شروع دن سے ہی پاکستان کے ان شیطانی عزائم کی مخالفت کرتے آرہے ہیں اور بلوچ آزادی پسند اس دن کو یوم آسروخ کے طورپر یادکرتی ہے اور اس دن کو قابض پاکستان کا مقبوضہ بلوچستان پر بلوچ نسل کشی کی جاری تاریخی تسلسل کا حصہ قرادیتی ہے۔ یہاں ایک قابل غور پہلو یہ بھی ہے کہ جو جوہری ہتھیار اسلام آباد اور پنجاب کے دفاع کی خاطر معرضِ وجود میں لائے گئے، انکا تجربہ بلوچستان کے ایک ایسے علاقے میں کیوں کیا گیا، جہاں نیوکلیئرریڈیس میں آبادیاں آتی تھیں۔ کیا دھماکوں سے پیدا ہونے والی نقصانات اور اثرات کے بابت وہاں موجود آبادیوں کو آگاہی دی گئی تھی یا وہاں مقیم لوگوں کی خاطر کسی اور جگہ زمینیں الاٹ کے گئے اور گھر بنائے گئے یا انہیں کسی بھی طرح کی سہولیات فراہم کی گئی؟ ان تمام سوالات کا جواب نفی میں ہے کیونکہ نواز شریف سمیت پاکستانی سیاسی و ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی نظروں میں بلوچ انکے غلام ہیں اور غلاموں کی زمینوں اور زندگیوں پر قابض کا حق ہوتا ہے، جنہیں وہ صرف ضرورت کے وقت استعمال کرکے پھینک دینے والا ٹیشو پیپر تصورکرتے ہیں۔
بیس سال گذرنے کے بعد بھی راسکوہ اور گرد و نواح کے علاقوں میں آج بھی ان دھماکوں کے اثرات ہوا اور پانی میں پائے جاتے ہیں، جسکی وجہ سے انسانوں اور مال مویشیوں کی زندگیاں کافی متاثر اور دشواری میں گذر رہی ہیں۔ بلوچ قومی رہنماؤں خصوصی طور پر بین الاقوامی سظح پر موجود بلوچ قومی تنظیموں کے نمائندگان کی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ عالمی اداروں کو زمینی حقائق سے آگاہ کریں۔