مثبت ضد اور گھمنڈی دشمن
تحریر: جلال بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ : کالم
ایک بات تو طے ہے، اگر انسان کسی چیز کو فکری و نظریاتی بنیادوں پر کسی مضبوط سوچ کے بنا پر کسی جہد کی شکل میں آگے لائے تو یقیناً وہ انسان ہر وہ چیز حاصل کرلیگا، جس کی اس انسان کو چاہ ہے۔
عوامی انقلاب میں ہم نے پڑھا بھی بہت ہے سنا اور دیکھا بھی بہت ہے، کیونکہ جب عوام صحیح اور درست سمت کی طرف گامزن ہوتے ہیں، تو عوام دنیا کی کسی بھی طاقت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیتا ہے۔ ظاہر سی بات ہے جب دشمن روز اپنی جنگی مظالم مظلوم قوموں پر برساتا ہے، تو اس کو دبانے کی شکل میں مظلوم چیخ اٹھتا ہے اور وہ چیخ اس قدر شدید ہوتا ہے، جو باقاعدہ ایک انقلابی شکل اختیار کرتا ہے۔
کچھ ایسے رنگ حالیہ دنوں بلوچستان میں بسنے والے ہزارہ قوم کو دیکھنے کو ملا، جو سب اپنا گھربار، کاروبار، نوجوان اپنے سکول و کالج چھوڑ کر کوئٹہ کے مختلف سڑکوں پر سراپائے احتجاج رہے، کیوںکہ انکے نوجوان، پیر و مرد کماش آئے روذ پاکستانی نام نہاد اسلام کے نام پر بنے ہوئے ڈیتھ سکواڈ کے درندہ صفتوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتارے جارہے ہیں۔
یقیناً کوئی نہ کوئی وجہ ہوگی جو دشمن ریاست، بلوچستان میں فرقہ واریت کی جنگ پھیلانے میں مصروف ہے۔ وہ اس لیئے کے بلوچستان میں لڑی جانے والی، قومی بقاء کی جنگ کو دنیا کے سامنے ایک مذہبی جنگ قرار دیکر دنیا عالم کے آنکھوں پر پٹی باندھا جاسکے۔ جس طرح دشمن ریاست پاکستان نے اپنے گماشتوں سے مل کر جموں و کشمیر میں مذہب کے نام پر لوگوں کو کئی سالوں تک الجھاتے رہے، جو آج تک بلوچ قوم کی طرح غلامی کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو اس چال بازی کو بلوچ قوم کے ساتھ ساتھ ہزارہ قوم بھی اچھی طرح سمجھنے میں کامیاب ہوئی ہے، کیوںکہ ہزارہ قوم کے اندر سیاسی پختگی کچھ زیادہ ہے۔ اسی پختگی کا فائدہ اٹھا کر ہزارہ قوم کے باشعور فرزندوں نے ماں، بہنوں کے ساتھ مل کر ایک پروگرام کے تحت مکمل احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا جو کوئٹہ کے مختلف مقامات پر ہوا۔ اس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہزارہ قوم کی عورتوں نے بہت بہادری کے ساتھ دشمن کو شکست دینے کی ٹھان لیا تھا۔ جن کے بہت ہی اچھے اور شاطرانہ انداز میں اپنے مطالبات رکھے ہوئے تھے، جو تادم مرگ بھوک ہڑتال کی وجہ سے مکمل اور مظبوطی سے سیاست کے تمام تر ضرورتوں کو پورا کیئے ہوئے تھے۔ جس کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کے دشمن ریاست پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف کو کوئٹہ آکر پورے ہزارہ قوم کے عورتوں سے ملنا پڑا۔ ابھی دو آپشن پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے پاس بچے ہوئے تھے، وہ یہ اگر آرمی چیف کوئٹہ آئے بھی تو نقصان، اگر نہ آئے تو بھی نقصان مطلب نا گھر کا نا گھاٹ کا۔
یقینا اس پورے سیاسی جنگ کا اور فتح کا حقدار ہزارہ قوم کی بہادر بیٹی جلیلہ حیدر ہے، جو ایک بہترین انقلابی عمل کا پیروکار بن کر اپنے ضد کو دشمن کی طرف موڑ کر ایک مثبت ضد کو ایک مخصوص ٹارگٹ کو حاصل کرنے کیلئے استعمال کرتی رہی اور گھمنڈی دشمن کا سر نیچا کرکے اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔