قومی تحریک میں نوجوانوں کا کردار – نورخان بلوچ

612

قومی تحریک میں نوجوانوں کا کردار

تحریر: نورخان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : کالم

دنیا میں اگر ہر قوم پر ایک نظر ڈالی جائے تو ہر قوم کی ترقی اور خوشحالی میں خاص کر نوجوانوں کا بہت بڑا کردار رہا ہے اور نوجوانوں نے ہر اول دستے کا کام کیا۔ وہ چاہے مظلوم و محکوم قوم کیوں نا ہو، خاص کر نوجوانوں کی قربانی ہر وقت اور ہر جگہ نمایاں رہا، مظلوم قوموں کی تحریک آزادی ہو یا کے آزاد قوموں کی ترقی اور خوشحالی ہو، ہر جگہ نوجوانوں کا بے مثال کردار آپ کو دکھائی دیگا۔

اسی طرح بلوچ قومی جدوجہد میں بلوچ نوجوانوں پر نظر دوڑائی جائے، تو ہزاروں نوجوانوں نے اپنی مادر وطن کے لیئےاپنی جانیں قربان کیئے ہیں اور ہزاروں نوجوان پاکستانی آرمی اور ( آئی ایس آئی ) کے ٹارچر سیلوں میں سزا سہہ رہے ہیں۔ ہزاروں بلوچ نوجوان اپنے مادر وطن کے لیئے جدوجہد سے وابستہ ہیں اور بلوچ قومی تحریک کو سائنسی اور نظریاتی بنیاد پر آگے لے جا رہے ہیں اور بلوچ قومی تحریک میں نوجوانوں کی قربانیوں کی ایک خاص فہرست، آپ کو دکھائی دیگا اگر ہم بلوچ قومی تحریک پر طائرانہ نظر ڈالیں تو ہمیں نو جوان لیڈر یوسف عزیز مگسی جیسے لیڈر نظر آتے ہیں۔ اسی طرح بلوچ قومی جدوجہد میں ڈاکٹر اللہ نظر جیسے جہد کار نے قومی تحریک کو ایک نئے رنگ میں تبدیل کردیا۔ ہزاروں نوجوان اپنے وطن کی جدوجہد سے وابستہ ہیں۔

اگر ہم موجودہ بلوچ قومی تحریک (۲۰۰۰ کی دہائی )پر روشنی ڈالیں تو بلوچ نوجوانوں نے دوسرے مظلوموں کی طرح ہر اول دستے کا کام کیا لیکں سامراج نے ہر وقت نوجوانوں کو ختم کرنے کے لٰیئے مختلف طریقے آزمائے لیکن دشمن کی ہر چال اور خواب کو نوجوان طبقے نے خاک میں ملا دیا، پھر دشمن نے تشدد کی راہ اختیار کی، بلوچ سیاسی ورکروں کو اغواء کر کے پھر لاشیں پھینکنے کا سلسلہ شروع کیا، لیکن نوجونوں کے پیروں میں لرزش آنے کے بجائے، وہ مزید اپنے مقصد سے مخلص ہو گئے اور اپنے جدوجہد کو ایک نئے رنگ اور نئے جذبے سے بڑھانے لگے۔

ہر دن بلوچ نوجوانوں کو اٹھا کر انکی مسخ شدہ لاشیں پھینکے جاتے ہیں یا انکو ٹارچر سیلوں میں بند کیا جاتا ہے۔ بلوچستان ایک ایسا خطہ ہے، جہاں کئی عشروں سے خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے، بےگناہ لوگوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے. لوگ اٹھائے جا رہے ہیں. اقلیتوں کی ٹارگٹ کی جا رہی ہے. مذہب کے نام پر نسل کشی کی جا رہی ہے. مسخ شدہ لاشیں بلوچستان کے ہر ویرانے میں مل رہی ہیں. بم دھماکے روز کا معمول بن چُکے ہیں. ایک ایسے انسانی المیے نے جنم لیا ہے، جو ختم ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے لیکن شومئ قسمت، عالمی اداروں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کو بلوچستان دکھائی نہیں دیتا جس کے سبب یہ انسانیت سوز مظالم روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔

پاکستان کے مظالم بڑھتے جارہے ہیں۔ بلوچ لیڈروں کو اغوا کرکہ لاپتہ کردیا جاتا ہے۔ ذاکرمجید جیسے لیڈروں کو لاپتہ کردیا جاتا ہے۔ زاہد کرد جیسے لیڈروں کو لاپتہ کردیا جاتا ہے ۔ آفتاب جیسے بچوں کو اٹھاکر لاپتہ کردیا جاتا ہے۔ ہمارے دشمن پاکستان کو ہمیشہ نوجوانوں سے انتہائی زیادہ نفرت رہا ہے۔ اکثر وہ نوجوانون کو قتل یا گرفتار کرکے انتہائی خوشی کا مظاہرہ کرتا ہے، کیونکہ نوجوانوں میں آزادی کا جذبہ اکثر زیادہ ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اگر ہم نے ان کو آج نقصان نہیں پہنچایا، تو کل وہ میرے حقیقت کو دنیا کو بتاکے مجھے نقصان پہنچا سکتے ہیں، وہ حقیقت کو چھپانے کیلئے، جو حقیقت کو دکھانے کی کوشش کرتا ہے، اس کو نقصان پہنچاتا ہے ۔ کچھ ہی مہینے پہلے جس طرح عزت جان کو ساتھیوں سمیت اغواء کرکے بیگواہ کیاگیا۔ نودان ، چراغ جان اور بی این ایم کے ممبر کمبر بلوچ کو اغواء کرکے اپنے ساتھ لے گئے۔ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کو حقیقت سے کتنا نفرت ہے۔