قلم کی اہمیت – محراب بلوچ

1610

قلم کی اہمیت

تحریر: محراب بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ کالم

مردمِ جہاں نے قلم کی تلاش کرکے، منزل کی تلاش میں پہنچنے سے پہلے انسان کو کئی مراحل سے گذاراـ ہاتھ میں آنے سے قبل، شاید قلم انسان ہی کے اندر کئی ایک خیالات کی صورت میں موجود تھا کیونکہ اس اندرونی قلم نے دنیا کی پہلی تحریر انسان کے چہرے پر اس کی تاثرات کی صورت اظہار پایا، پھر ہاتھوں اور آنکھوں کے اشاروں تک بات پہنچا، پھر منہ سے نکلی آواز معنی دینے لگی ـ

جنگلی انسان چیخ کر اپنے زخمی اور خطرات میں گھر جانے کا اعلان کرتا تھا اور دوسروں کو اپنے مصیبت سے اسی نوعیت کے پیغامات کے زریعے آگاہ کرتا تھا، یہ چیخ آج تک ہمارے مختلف طریقوں سے کانوں میں گونج رہی ہے۔ وقت جیسے جیسے گذرتا گیا، کبھی نقارے پر پڑنے والے چوٹ کو اشارہ بنایا گیا، تو کبھی آگ کے دریافت کے بعد دھوئیں کو پیغام یا لینے دینے کیلئے استعمال کیا گیا، لکڑی کی لمبی چھڑی گاڑھ کر، اپنے سفر کی اطلاع دی جاتی اور اس لمبی چھڑی کے ساتھ چھڑیاں گاڑھ کر سفر کے ممکنہ دنوں کی تعداد کو بیان کیاـ

گاڑھی گئی چھڑی کی زیادہ یا کم لمبائی سے عرصہ سفر کے طوالت یا مختصری کا اعلان کیا گیا، اسی دوران انسانوں نے اپنے پوروں کے زریعے گنتی سیکھی اور انگلی کے ساتھ نرم زمیں پر آڑھی ترچھی لکیریں کھینچیں ـ یوں لگتا ہے انسان کا ہاتھ، مٹی پر لکیریں کھینچتی، انگلی پہلی زندہ قلم تھی اور گنتی میں مصروف پہلا کلکولیٹرـ اس زندہ قلم کی جگہ بعد میں چھوٹی سی لکڑی نے لے لی اور انسان نے اسے سنوار کر دنیا کی پہلی تصویر بنائی ـ اسی طرح دنیا کی سب سے پہلی تصویر اور تحریر ہر دو قلم کی فیض سے وجود میں آئے۔

صدیوں کے سفر کے بعد قلم کی آواز الفاظ میں ڈھلنے لگی ـ انسان نے قلم سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے آوازوں کو محفوظ کیا اور خیالات کو بھی اسنے اللہ تعالٰیٰ کے اس الوہی وسیلے کو استعمال کرکے اپنے احساسات کو بھی قلم بند کیا اور جزبوں کو بھی زبان دی، معلوم ہوتا ہے کہ اگر قلم نہ ہوتا تو تحریر نہ ہوتی، ماضی میں انسان کی آواز کبھی لفظوں میں ڈھل نہیں سکتی تھی، خیال اور جذبے بھی اظہار کا لبادہ نہیں اوڑھتے، اگر قلم نہیں ہوتا، تو تحریر نہ ہوتی، ماضی اور حال کی آواز صدا نہ بن پاتی، خیال اور جذبے خیال میں نہ ڈھلتےـ

اگر قلم نہ ہوتا، تو کہانیاں نہ ہوتیں، دھرتی کے سینے پر آباد اقوام کو سمحجھانے کےلیئے اجڑجانے والی بستیوں کے قصے نہ ہوتے، قلم نہ ہوتا تو عبرت نہ ہوتی، تو نصیحت نہ ہوتی، قلم نہ ہوتا تو جذبے اپاہج رہتےـ قلم نہ ہوتی تو اظہار کا پہنچ، صرف آواز تک ہوتی لیکن قلم نے انسانی جذبوں کی حد آنے والے زمانوں تک پیھلادی۔ اسلیئے قلم اللہ کی ایجاد اور انسان کی سب سے بڑی دریافت ہےـ

اللہ تعالٰیٰ نے قلم کو انسانوں کی تہذیب و تعلیم کا زریعہ بنایا تاکہ وہ خالق، مالک اور رازق کے بہترین بندے، ثابت ہوسکیں …….جب قلم کے ذریعے ملنے والاعلم لاکھوں، کروڑوں انسانوں میں سے کچھ نفوس کو حقیقتاً بندہ بنادیا، تو ان بندگانِ خدانے اپنے چہار طرف، دور دورتک، قریب و دور غرضیکہ ہر جگہ شعورکی جوت جگائی ـانسان کے اس قبلے نے قلم کو چراغ بناکر کاغذ کے کورے سینے پر اپنی نور بانٹتی تحریروں کی دیوالیاں سجائے ـ

انسانوں کے اس گروہ نے علم و شعور کے چراغ کو جلا کر جنگ، حرص وہوس اور جہالت سے بھرے ازہان کو شعور کی نئی تابانی بخشی، دنیا کے تمام بڑے فلسفی، تاریخ دان، اصلاح کار، ادیب محقق، عالم و مفکر قصہ گو، کہانی کار و داستاں نویس محبت سے لیکر نفرت اور دوستی سے لیکر دشمنی تک ہر احساس کو قلم بند کرتے رہے۔

یہ قلم جہاں مردم اپنے جذبوں کو ایک دوسرے تک پہنچاتے ہیں، یہ قلم شے مرید و حانی کی کہانیاں نسل در نسل، دن و رات سفر کرکے انسانی زندگی کے ساتھ ساتھ بغیر تھکے چلتا ہے، یہ قلم ہے شیریں و فرحاد، سسی و پنّوں، کہّیا و سدو کی درد بھری کہانیاں پیش کرکے، ہمارے سامنے روز گلہ و آزاری کرتے ریتے ہیں۔

یہ قلم کی روشنی ہے کہ آج ہم چاکر و گہرام کی تیس سالی جنگ کو اپنے قوم کی نادانی کہہ کر پکارتے ہیں اور آج اپنے لیئے نئے راہ و در نکالنے کی آرزو رکھتے ہیں۔ یہ قلم ہے کہ ہم اپنی تاریخ سے آشنا، اپنے پُشت کی بہادری و میارجلی کے کہانیوں کو اپنے لیئے مسکن سمجھ کر اپنے جذبے کو دوام بخشتے ہیں۔

آج اگر قلم نہیں ہوتا تو کہاں درندگاں کی درندگی دم گھونٹتا، یہی قلم نے جہاں یزیداں کو موت کے گھاٹ اتارا ہےـ یہ قلم کا دِیا ہے، آج جہاں آدم روشنی سے آدمِ زات کو پہچان کر ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوکر اپنی انسانیت کی اصل روح کو آشکار کرتے ہیں۔ یہ ہے تو قلم، جہاں قلم کار دنیا کے ہژدہ ہزار مخلوقات سے زیبناک ظاہر ہوتے ہیں۔

اگر قلم نہ ہوتا تو پتہ نہیں ملافاضل کے اظہارِ حاضردماغی کہاں مند کے جنگل و بیابیانوں میں بیگواہ ہوجاتے، پتہ نہیں غلام حسین شوہاز کے لچّوں کا حشرکیا ہوتا؟ اگر قلم نہ ہوتا کون مادرِ وطن بلوچستان کے مزاروں کا تمردی جوان مردی سرزمینِ فرزندان تک پہنچاتےـ پتہ نہیں سازین و گوہر کے مَکر فریبوں کو کون ہمارے سامنے آشکار کرتے؟ کہ ہم دگہ باز دھمی آوازوں سے روشناس رہیں ـ