فرشتے۔ میرین بلوچ

472

فرشتے
‎میرین بلوچ

‎ایلکس ہیلی اپنے کتاب Roots میں ایک عجیب مخلوق کا ذکر کرتا ہے، انہیں وہ طوبوب کا نام دیتا ہے۔ وہ اپنی کتاب میں کہتا ہے کہ “افریقہ کے لوگوں نے نہ انہیں کہیں دیکھا ہےاور نہ ان کے بارے میں کچھ جانتے ہیں کہ کہاں سے وہ آتے ہیں اور کہاں کو چلے جاتے ہیں، انہوں نے آج تک اس خدائی مخلوق کو نہیں دیکھا ہے۔”

‎طوبوب سمندر کی کنارے اور جنگل سے گاؤں کے لوگوں کو غائب کر دیتے تھے اور نا جانے انہیں کہاں اور کیوں لے جاتے تھے۔ پھر ان لوگوں کا کچھ پتا نہیں چلتا کیونکہ طوبوب کا گرفت اتنا مضبوط تھا کہ آج تک اسکے چنگل سے کوئی واپس پلٹ کر نہیں آیا اکثر لوگ یہ چی میگوئیاں کرتے کہ طوبوب انسانوں کو کھاجاتے ہیں اور کچھ لوگ یہ کہتے کہ انسانوں کو لاپتہ کرکے ان سے محنت و مشقت کا کام لیتے ہیں، الیکس ہیلی اپنی کتاب میں انکا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ “اکثر گاؤں سے کسی کے لاپتہ ہونے کا اعلان ہوتا اور گاؤں کی مائیں اپنے بچوں کے لیئے پریشان ہوجاتیں۔ نزدیک کے گاؤں سے کسی کے گم ہو نے کا اعلان ہوتا کہ کہیں انکے لخت جگر طوبوب کے ہاتھوں لاپتہ نہیں ہوئے اور وہ مائیں اکثر اپنے بچوں کی واپسی کی راہیں تکتے ہیں کہ کب انکے پیارے واپس اپنے گھروں کو لوٹ آئیں گے۔”

دنیا کے ہر ملک میں ظالم، مظلوم، آقا، غلام کا رشتہ ایک جیسا ہے۔ چاہے وہ افریقہ کے سیاہ فاموں پہ امریکہ کا ظلم ہو، فرانس کا الجزائر پر، یا پاکستان کا بلوچستان پہ ظلم ہو، سب کا مقصد ایک ہی ہوتا ہے۔ مظلوم کا استحصال اور اسکے وسائل کی لوٹ مار۔

افریقہ کے جعفورے گاؤں میں طوبوب اپنے ظلم اور لوگوں کو غائب کرنے کی وجہ سے مشہور ہیں، اسی طرح بلوچستان می لوگوں کو لاپتہ کرنے میں فرشتوں کا اہم رول ہوتا ہے، جن کی درندگی نے بلوچستان بھر میں خوف کا ماحول پیدا کیا ہوا ہے۔ بلوچستان کے سب سے بڑے شہر شال کے علاقے سریاب میں بھی یہی صورتحال ہے۔ رات کے نو بجتے ہی ویرانی چھا جاتی ہے، جس کی وجہ سے کسی مریض کو ایمرجنسی کی صورت میں ہسپتال لے جانے میں سخت ہزیمت کا سامناکرنا پڑتا ہے اور گھریلو ضروریات کی اشیاء کا ملنا بھی محال ہے کیونکہ سریاب کی گلیوں میں رات 12 بجے کے قریب سیاہ شیشے والی گاڑیوں میں نقاب پوش فرشتے نازل ہو جاتے ہیں۔

‎البتہ افریقہ کے ملک گیمیبا کے جفورے گاؤں کے بنسبت سریاب کے باسی جانتے ہیں کہ یہ وہ فرشتے نہیں جن کا ذکر مقدس کتابوں میں ہوا ہے بلکہ یہ فرشتے زمینی خداوں کے بنائے ہوئے ہیں، جو اپنے مفادات اور تسلط کو برقرار رکھنے کے لیئے معصوم بلوچ فرزندوں کو اغوا کرکے لاپتہ کردیتے ہیں۔

‎بقول وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چئیرمین ماما قدیر بلوچ کے 25 ہزار کے قریب بلوچ فرزند ان ریاستی فرشتوں کے مظالم کا شکار ہوکر لاپتہ ہوچکے ہیں۔

‎بلوچ مائیں اپنے بچوں کے جوان ہونے سے اور تعلیم دینے سے گھبراتے ہیں کیونکہ اکثر تعلیم یافتہ نوجوان ہی فرشتوں کا شکار ہوتے ہیں۔ بلوچستان میں برسوں سے بس یہی ہوتا آرہا ہے، روزانہ کسی نہ کسی جگہ کوئی بوڑھا باپ انہی فرشتوں کا شکار اپنے جوان بیٹے کے لاش کو کندھادیتا ہے۔ مائیں اپنے فرزندان کے انتظار میں راتیں جاگ کر گذارتے ہیں۔

حمیدہ، فرزانہ، سیما اور خدیجہ جیسی بہنیں جوان بھائیوں کی تصویریں اٹھائے عدالتوں، جلسے، جلوسوں میں اپنے بھائیوں کی بازیابی کے لیئے صدائیں لگاتی ہیں۔ بچے اپنے والد کی تصویروں کو دیکھ دیکھ کر جوان ہوتے ہیں اور یہ بلوچستان میں روز کا معمول ہوتا ہے۔