امریکی خبر رساں ادارے اے پی کی رپورٹ کے مطابق پینٹاگون میں نکولسن نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امن کے لیے اسٹیک ہولڈرز کے درمیان مذاکرات کے لیے کئی راستے کھل گئے ہیں۔
کابل میں اپنے دفتر سے بات کرتے ہوئے نکولسن کا کہنا تھا کہ وہ کسی کا نام ظاہر نہیں کرسکتے تاہم امن مذاکرات کو سر انجام دینے کے لیے خفیہ طور پر بات چیت جاری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت خفیہ طور پر بات چیت اور سفارتی کام کیا جا رہا ہے جو ہر سطح پر جاری ہے تاہم ہم درمیانے درجے اور سینیئر طالبان رہنماؤں کو افغان کے ساتھ ملتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ غیر واضح بین الاقوامی تنظیمیں، غیر ملکی حکومتیں اور دلچسپی رکھنے والے لوگ اس کام میں ملوث ہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ سال اگست کے مہینے میں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نئی پالیسی کے ساتھ افغان جنگ جیتنے کا عندیہ دیا تھا تو انہوں نے کہا تھا کہ امن کے لیے طالبان کو مجبور کرنے کا حدف ہم پاکستان اور دیگر دلچسپی رکھنے والے ممالک کی مدد سے حاصل کریں گے۔
تاہم امریکی حکومت کی واچ ڈاگ ایجنسی نے حالیہ رپورٹ میں بتایا تھا کہ انہوں نے اس پالیسی کے کام کرنے کی چند نشانیاں دیکھی ہیں۔
نکولسن کا کہنا تھا کہ طالبان کے اندر جنگ کے خاتمے کے لیے گہما گہمی پائی جاتی ہے جبکہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان امن لانے کے لیے پیشکشوں پر کئی متفقہ مفادات بھی شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اس بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کر رہے ہیں کہ مصالحتی مذاکرات میں بہت صلاحیت موجود ہے۔
خیال رہے کہ نکولسن جنہوں نے افغانستان میں امریکا اور اتحادی افواج کی مارچ 2016 سے قیادت کی ہے اپنا عہدہ چھوڑ رہے ہیں۔
پینٹاگون نے اعلان کیا تھا ڈونلڈ ٹرمپ نے نکولسن کی جگہ آرمی لیفٹننٹ جنرل اسکوٹ ملر کو اس عہدے پر نامزد کیا ہے۔