شہید علی نواز گوہرکی بے مثال جدوجہد – جنید بلوچ

848

شہید علی نواز گوہرکی بے مثال جدوجہد

تحریر: جنید بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم

شہید علی نواز گوہر عرف کاکو ایک ہو نہار، باصلاحیت، سچا اور ایماندار بلوچ جنگجو تھے۔ کاکو کی ہمت اور انکے بہادری کی کوئی مثال نہیں، ویسے تو بلوچ قومی تحریک میں ہزاروں بلوچ نوجوانوں کی مثالیں ہیں، جن میں سے ایک مثال کاکو کی جدوجہد ہے، وہ ہر وقت اپنی زندگی داو پر لگا کر دشمن سے دو بہ دو مقابلہ کرتا رہا، اسکا سوچ و مقصد صرف بلوچستان کی آزادی تھی۔ وہ کبھی بھی اپنے مقصد سے پھیچے نہیں ہٹا، ہر وقت دشمن کی سازشوں کو بےنقاب کرنے کی کوشش کرتا رہا۔

2005 کو شہید علی نواز گوہر عرف کاکو جان، بی ایل ایف کے کمانڈر شئے اختر ندیم بلوچ اور بی ایل ایف کے سربراہ بلوچ قومی لیڈر ڈاکٹر نظر بلوچ کے ساتھ کراچی سے پاکستانی ایجنسیوں کے ہاتھوں اغواء ہوکر لاپتہ کیئے گئے اور ٹارچر سیلوں میں بند کردیئے گئے، آپ نے بہت اذیتیں سہے، آخر کار ایک سال بعد پاکستانی ریاست کے زندانوں سے بازیاب ہوگئے، اسکے باوجود، وہ بی ایل ایف کے رہنماؤں کے ساتھ ساتھ بلوچ قومی تحریک کو آگے بڑھانے کی نئی حکمت عملیوں سے، اپنی جدوجہد جاری رکھتے رہے۔ شہید کاکو جان نے مسلح تنظیم بی ایل ایف کے پلیٹ فارم سے جدوجہد شروع کی اور اپنے صلاحیتوں کی وجہ سے کم عرصے میں ہی بی ایل ایف میں کمانڈر کے عہدے ہر فائز ہوئے۔ وہ ایک نڈر گوریلا جنگجو تھے۔

آپ بی ایل ایف کے پلیٹ فارم پر رہ کر ایک اچھے طریقے سے بلوچ قومی آزادی کی جنگ کو آگے بڑھا رہے تھے اور دوسرے جہد کاروں کو بھی ایک اچھے طریقے سے گوریلا جنگ کے اصولوں کے مطابق گامزن کر رہے تھے۔

30 جون2015 کو کاکو جان کے بڑے بھائی شہید سفر خان اور اپنے دو بھانجوں شہید شہیک اور شہید ذاکر جان سمیت دس اور ساتھیوں کے ساتھ مشکے کے علاقے میہی میں پاکستانی فوج کے ساتھ جنگ میں شہید ہو گئے۔ اس کے بعد بھی شہید کاکو کی ہمت اور جدوجہد میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ اور تیزی آئی، انہوں نے اپنے بڑے بھائی اور دو بھانجوں کی شہادت کے بعد بھی اپنے حوصلے پہاڑوں سے زیادہ بلند رکھے۔

اپنے بہادری اور مضبوط حوصلوں کے بنیاد پر فخر محسوس کرتے ہوئے، وہ اپنے سب دوستوں کو یہی یقین دلاتے رہے کہ یہ جنگ ہے، اس میں قربانی دینی ہوگی، قربانی دیئے بغیر آزادی ناممکن ہے، جنگ میں جانیں جاتی ہیں، یہ آزادی کا راستہ اتنا آسان نہیں بلکہ کٹھن ہے لیکن اس جنگ کو ہمیں مسلسل جاری رکھنی ہے۔ جنگ میں اپنے دلوں سے گھبراہٹ کمزوریوں کو ختم کرنا چاہئے، جنگ کو بہادری کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیئے، اگر آج ایک نوجوان دشمن کے خلاف اپنے مقصد کیلئے شہادت نوش کردیتا ہے، تو اس کے پیچھے، کئی سو نوجوان کھڑے ہوتے ہیں، غلامی کے خلاف جدوجہد کرنے کےلیئے، یہ جنگ کبھی ختم نہیں ہوگی کیونکہ جب تک ایک بلوچ نوجوان زندہ ہے، وہ اپنی مٹی کے لئے قربانی دینے کی خواہش مند رہے گی۔ ضرور جنگ میں کمزور رہنا ہماری شکست کی سبب بن سکتی ہے۔ ہماری کمزوری، ہماری جدوجہد کو ختم کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔ اس لئے ہر جوان کو مضبوطی کے ساتھ ٹھوس جواب دینا چاہیئے، دشمن کے ہر چالوں کو ناکام کرنا چاہیے، تاکہ دشمن کبھی بھی ہمیں کمزور نہیں سمجھے، دشمن کو یہ اندازہ ہو جانا چاہیئے کہ بلوچ اپنی آزادی کے لیئے کسی بھی قسم کی قربانی دینے کے لیئے تیار ہیں، دشمن کو خود یہ احساس ہو جائے کہ ایک مضبوط طاقتور قوم کو ختم کرنا ناممکن ہے۔

یہی باتیں شہید علی نواز گوہر عرف کاکو ہر وقت اپنے دوستوں اور بزرگوں کے ساتھ کہتا تھا، کہ یہ جنگ ہمیں لڑنا ہے مرتے دم تک لڑنا، جب تک خون کا ایک بھی بوند ہمارے رگوں میں دوڑ رہا ہے تب تک ہمیں دشمن کے ساتھ لڑنا ہوگا، موت چاہے کسی بھی وقت آجائے۔

کاکو جان پھر ہمارے ساتھ زیادہ دن نہ رہا، شہید سفرجان، شہید شہیک اور شہید ذاکر جان کے شہادت کے دو مہینے بعد کاکو جان اپنی سرزمین کےلیئے اپنی زندگی قربان کر گیا، آج وہ جسمانی طور پر ہمارے ساتھ نہیں لیکن انکا جو سوچ وفکر تھا وہ آج بھی زندہ ہے۔