شہید عاطف یوسف سے جڑی چند یادیں
تحریر: عبدالواجد بلوچ
(دی بلوچستان پوسٹ کالم)
چند لمحوں کے لیئے آنکھیں بند کرلیتا ہوں تو وہ منظر آنکھوں کے سامنے گردش کرنے لگتا ہے کہ ایک کساں سال لڑکا، جو ابھی تک زیر سن ہی تھا، زندگی کی رعنائیوں اور سنجیدگی کے مابین فرق کرنے کے لیئے، سے ابھی تک عمر کی طویل مسافت طے کرنا تھا لیکن اس لڑکے کو کساں سالی ہی میں مَیں نے ہمیشہ انتہاء درجے کی سنجیدگی اور لا تعداد صلاحیتوں سے لیس پایا، جو اس لڑکے کے اندر پوشیدہ تھیں. یہ لگ بھگ 2007،08 کی بات ہے مند میں انقلابی مراگشیں انقلابی دوستوں کے مجالس اپنے عروج پر تھیں، سیاسی پارٹیوں کے درمیان مختلف نوعیت کے مجلس ہوا کرتی تھیں اور ہمارا حالات حاضرہ کو جاننے و با خبر رہنے کے لئے صرف تین ذرائع تھے اور وہ تھیں روزنامہ آساپ، روزنامہ توار اور ڈیلی انتخاب۔ سیاسی تربیت تو ہم اپنے سیاسی اکابرین سے حاصل کررہے تھے لیکن قلم کی اہمیت اور اسے استعمال کرنے کا ہنر بشمول حوصلے کے ہم نے “روزنامہ آساپ”سے سیکھی، جو ہنوز جاری ہے.(یہی وہ تربیت و علم تھی، جس کی وجہ سے آسیب کے سائے روزنامہ آساپ پر پڑے اسے بند ہونا پڑا).
کالج اور یونیورسٹی کی تعطیلات میں مَیں جب اپنے گاؤں مند آتا تھا، تو سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ وہاں دوستوں کے ساتھ مختلف اوقات بازار کا چکر لگایا کرتے تھے، جہاں شام کے وقت اخبارات کی ترسیل کا وقت ہوتا تھا، مند کے واحد نامور ھاکر غلام محمد جو کہ از خود چلتا پھرتا نیوز اینکر ہے، ہمارے علاقے کا (اللہ پاک انہیں عمر دراز عطا فرمائے) انہی کی توسط سے ہمیں حالات حاضرہ کے بارے میں معلومات اور اخبارات نصیب ہوتی تھیں. ہر وقت شام کے وقت جب ہمیں ھاکر ہاتھ میں اخبار تھامے ملتے تھے، تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ لمبی پیاس میں مبتلا افراد کا پیاس اب ہی بجھنے والا ہے. میں نے ہمیشہ اس لمحے اس لڑکے کو دیکھا اسے محسوس کیا، جب وہ پتلا سا لڑکا ہم سے اخبار لیکر گھر جاکر پڑھتا تھا، اس میں ایک ایسی لگن تڑپ اور جستجو تھی جس سے ایسا لگتا تھا کہ ان کے اندر کساں سالی میں ایک عظیم انقلابی کا روح پیوست ہے کیوں نا ہو کیونکہ ان کی تربیت ہی ایسے گھرانے میں ہوئی تھی، جہاں انقلاب مقدس شے سمجھی جاتی ہے.
شہید غلام محمد اور اپنے کماش کامریڈ یوسف بلوچ کی صحبت میں یقیناً عاطف بلوچ نے تربیت پائی کیونکہ وہ لڑکا ہمہ وقت تیار ملتا تھا، لوگوں کو اگر دیکھا جائے تو ان کے ہم عصر مٹر گشت اور کھیل کود جیسے فضولیات میں مبتلا نظر آتے تھے، لیکن عاطف بلوچ اپنے کم عمری میں ایک سرگرم سیاسی کارکن کی طرح اکٹیو نظر آتا تھا. مند ہو تمپ ہو تربت دشت یا کہ بلیدہ جہاں کہیں بھی جلسہ سیمینارز یا مظاہرے ہوتے تھے، جب مند سے قافلہ جاتا، تو اس قافلے میں عاطف بلوچ ضرور نظر آتے تھے.
وہ تو مستقبل کا لیڈر تھا، اس کو ہم تو شہید غلام محمد بلوچ جیسے عظیم انقلابی لیڈر کی طرح دیکھنا چاہتے تھے، ان کو تراشنا تھا، مزید انہیں وہ مواقع دینے کی اشد ضرورت تھی، جس سے ایک اعلیٰ پائے کا شخصیت نکھر سکے. بلوچ انقلابی سماج پر آسیب کے سائے اتنے منڈلا رہے ہیں، جس سے عظیم سے عظیم تر ہستیوں سے ہمیں محروم ہونا پڑ رہا ہے، اس عجیب سی کیفیت میں ہمارے سماج کے ان قوتوں پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، جن کے پاس وسائل ہیں مضبوط و توانا کارکن اور انہی کارکنان میں سے عظیم انقلابی رہبر نکالنا انتہاء درجے کا کھٹن مرحلہ ہوتا ہے، اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے ان سخت لمحات میں ان ہستیوں کا نا کھوئیں جس سے ہمارا سماج توانا ہوسکتا ہے.
میں ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے شہید عاطف بلوچ جیسے عظیم انقلابی کارکنان کو مستقبل کا لیڈر دیکھنا چاہتا تھا، جس سے وہ ہمہ وقت اپنے عوام اور لس راج کو تربیت ان کی رہنمائی کیلئے تیار رہیں. لیکن اس بات سے میں قطعاً انکار نہیں کرسکتا کہ ہم جس سماج میں رہتے ہیں، وہاں عظیم بندوں کو کرہ زمین پر رہنے اور سانس لینے کا کوئی حق نہیں، جمہوری روایات کے آگے مضبوط بند باندھ کر عظیم لوگوں کو سخت راہوں کے مسافر بننے پر مجبور کرنا بھی اسی سماج کے رویوں کی وجہ سے ہورہا ہے.شہید عاطف بلوچ نے اپنا فرض ادا کرکے کہا ہوگا “اب تمہارے حوالے وطن ساتھیوں”