سوشل میڈیا: دشمن پروپیگنڈے کیلئے کتنا کارگر؟
برزکوہی بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم
گھانا کے انقلابی گوریلا لیڈر نکروما دشمن کے نفسیاتی اور عسکری پروپیگنڈے کے حوالے سے کہتا ہے کہ “دورانِ جدوجہد دشمن ہمیں کمزور کرنے کے لیئے جو حربے استعمال کرتے ہیں، انہیں سمجھنا چاہیئے کیونکہ جب وہ گوریلوں کی منظم جدوجہد کو نہیں روک سکتے، تو وہ اپنے پرانے آزمائے ہوئے طریقے استعمال کرتے ہیں۔ جیسے ویتنام میں ہوا۔ وہ ویتنامی گوریلوں کو روک نہ سکے تو ان گوریلوں کے خلاف پروپیگنڈا کا محاذ کھول دیا۔”
اسی نفسیاتی اور جنگی پروپیگنڈے کے مقاصد ذیل ہوتے ہیں:
-1 تحریک آزادی کو منظم اور مضبوط ہونے سے روکنا، اس کے ساتھ ساتھ نفسیاتی حربوں اور منفی پروپیگنڈوں کے ذریعے لڑنے والوں کے جذبات کو ختم کرنا۔
-2 جہاں پر مسلح انقلابی جدوجہد چل رہی ہوتی ہے، اسے آگے بڑھنے سے روکنے کے لیئے کچھ سیاسی، معاشی اور سماجی اصلاحات کی جاتی ہیں۔(یعنی لوگوں کو معمولی مراعات سہولت وغیرہ فراہم کی جاتی ہے) تاکہ جدوجہد کا خاتمہ ہوسکے۔ نفسیاتی معاہدے ابلاغ کے ذرائع پر کیئے جاتے ہیں، جس میں نشریاتی ادارے، بی بی سی، وائس آف امریکہ، وائس آف جرمنی شامل ہیں۔ مختلف چینلز پر مختلف زبانوں میں لوگوں کی ذہنوں میں قومی آزادی کی تحریک کے خلاف زہر بھرا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ایسے پروگرام خاص طور پر انگلش میں گھنٹوں تک نشر کیئے جاتے ہیں۔
اس نفسیاتی جنگ میں ’’الفاظ‘‘ سے بھرپور مدد لی جاتی ہے۔ مختلف سرمایہ دار ممالک نام نہاد آزاد پبلشنگ ادارے، انقلابی قوم پرستی کے نام اور کلچر، شہری تعلیم اور سول سوسائٹی کے نام پر ادارے قائم کیئے جاتے ہیں۔ جن میں تحریک آزادی کے خلاف زہر اُگلا جاتا ہے۔
اخبار اور پمفلٹس کے ذریعے بھی مغربی تہذیب اور ثقافت کی تعریف کی جاتی ہے۔ یہ مواد مختلف ذرائع سے ہر شہر او گاؤں میں پہنچایا جاتا ہے۔
جب اپنے پروپیگنڈے کے بعد وہ ماحول سازگار دیکھتے ہیں، تو پھر باقاعدہ فوج کے ذریعے جہدوجہد کو کچل دینے کی خاطر طاقت کا بھر پو استعمال کیا جاتا ہے۔
اس کے ساتھ جب انقلابی گرفتار ہوتے ہیں، تو کورٹ میں ان کے اوپر مجرم کی حیثیت سے مقدمے چلائے جاتے ہیں۔ انہیں جنگی قیدی کی حیثیت نہیں دی جاتی۔ آخر میں یہ کہہ کر سزا دی جاتی ہے کہ یہ غنڈے اور بدمعاش ہیں۔ پھر انہیں گولیوں سے اڑادیا جاتا ہے یا پھانسی دی جاتی ہے یا پھر طویل مدت کی سزائیں سنائی جاتی ہیں۔ سامراج کے اس چال کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مسلح انقلابی تحریک کو اہمیت نہ ملے اور انقلابی مایوس ہوں۔
یہاں قابل غور نقطہ یہ ہے کہ دشمن پاکستان بھی ہمیشہ بلوچ انقلابی جہدوجہد اور انقلابیوں اور ان کی بے شمار قربانیوں کوغیر اہم قراد دینے کی بہت کوشش کرتا ہے اور کررہا ہے۔ مخلتف القابات، الزامات اور ناموں کے ذریعے سے تاکہ مظلوم قوم میں اور بلوچ معاشرے میں اچھا خاصہ وقار، قدر، مقام اور اہمیت کم اور دوسری جانب خود کمزور اور نیم پختہ انقلابی بھی دشمن کی نفسیاتی اور فوجی پروپیگنڈوں کی ذد میں آکر مایوس ہو جائیں۔
چی گویرا نے اسی سامراجی حکمت عملی کو یوں پیش کیا کہ: ’’ان کے لیئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ تحریک آزادی کو اس کے ابتدائی مراحل میں ختم کیا جائے، تاکہ وہ اپنے لوگوں سے ملکر یکساں نہ ہوسکیں۔‘‘ سامراج یہ بتاتا رہتا ہے کہ افریقیوں میں انقلابی جنگ کی صلاحیت نہیں، اس کے لئے یہ وہ باتیں گھڑتے ہیں
-1 نسل پرستی۔
-2 ہمارا تاریخی پس منظر۔
-3 کیڈر، نظریاتی اور انقلابی قیادت کی کمی۔
مسئلہ یہ نہیں ہے کہ کوئی انقلابی، پیدائشی لڑاکو ہوتا ہے یا جنگجو۔ مسئلہ یہ بھی نہیں ہے کہ افریقہ انقلابیوں کے لئے مناسب سرزمین ہے یا نہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ انقلابی جنگ ہی واحد چابی ہے، جس کے ذریعے سے افریقہ کی آزادی ممکن بنائی جاسکتی ہے۔
تو سنجیدگی سے سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ پوری پاکستانی ذرائع ابلاغ اخبارات، ٹی وی چینلوں کے علاوہ جو بلوچوں کی دسترس میں نہیں ہیں، اس وقت صرف سوشل میڈیا دشمن کے ساتھ بلوچوں کے بھی کنٹرول میں ہے، تو پھر بلوچ کس حد تک سوشل میڈیا کو بلوچ قوم اور بلوچ قومی تحریک کے حق اور دشمن کے خلاف بہتر انداز میں استعمال کررہے ہیں؟ کیا اس وقت ایسا نہیں لگتا اور حقیقت بھی یہی نہیں ہے کہ بلوچ سیاسی کارکنان خاص کر بلوچ سوشل میڈیا ایکٹویسٹ، سوشل میڈیا دشمن کے خلاف استعمال کرنے سے زیادہ اختلاف رائے، تنقید، سوال اٹھانے، تحریکی کمزوریوں کی نشاندہی، سیاسی بحث و مباحثہ کی آڑ میں دشمن کے نفسیاتی اور فوجی پروپیگنڈے کی ذمہ داری کو بخوبی سرانجام دے رہے ہیں یعنی تحریک اور جہدوجہد کے خلاف منفی پروپیگنڈے، کرادر کشی اور الزامات کی بوچھاڑ بلوچ معاشرے میں تحریک کی اہمیت کو خود کم کرنا، کمزور کرنے کے ساتھ ساتھ کمزور نیم پختہ انقلابیوں کو تحریک سے بدظن اور مایوس بھی کررہے ہیں اور تمام تر فائدہ صرف دشمن کو پہنچ رہا ہے۔ اگرایسا نہیں تو اس وقت تک کے سوشل میڈیا کے بحث و مباحثے سے بلوچ قومی تحریک کو کس حدتک فائدہ اور کس حد تک نقصان ہوا ہے؟ اس کا اندازہ روز روشن کی طرح عیاں ہے، اس کے باوجود تسلسل کے ساتھ اس تحریک کے نقصاندہ عمل کو جاری و ساری رکھنا ایسا نہیں کہ تحریک کے اندر انقلابی جہد کاروں کے روپ، وہ لوگ موجود ہیں جن کا ذکر انقلابی لیڈر نکروما یوں کرتا ہے کہ “سامراج کا مقصد یہ ہے کہ افریقہ میں بڑھتے ہوئے انقلابی عمل کو روکا جائے، اس لیئے وہ اپنے نو آبادیاتی اور جدید نوآبادیاتی ایجنٹوں کا استعمال کریگا، وہ ہر حال میں وطن پرست اور انقلابیوں کو دل شکستہ کرنے کی کوشش کریگا، اس لیئے ہمیں متحدہ انقلابی افریقہ اور سوشلزم کے لیئے جہدوجہد کے درمیان، اپنے اندر چھپے ہوئے دشمن کو پہچانا پڑیگا، وہ بظاہر ہمیشہ اپنی ہمدردیاں انتہائی حد تک انقلابی جہدوجہد کے ساتھ رکھیں گے لیکن خفیہ طور پر سامراج اور جدید نوآبادیات کیلئے کام کرینگے، اس لیئے انقلاب کی کامیابی اور سامراج کو شکست دینے کی خاطر اور خفیہ ایجنٹوں کو پہچاننے کی خاطر ہمیں ازسرنو نئی حکمت عملی ترتیب دینی ہوگی، نہیں تو ہم سامراج کی کھلی جارحیت کا شکار ہوکر ختم ہوجائینگے۔
افریقی لیڈر نکروما آپسی اختلافات کے حوالے اور دشمن کے فائدہ اٹھانے کے حوالے سے کہتا ہے کہ
-1 ہماری مسلح جدوجہد کے اندر ذرا سی بھی معمولی پھوٹ کو وہ اپنے فائدے میں استعمال کرنے کی بھر پور کوشش کریگا۔
-2 اندورونی اختلاف پر سیاسی طریقے سے اور بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرناچاہیئے۔
-3 پارٹی اور کیڈرز کے درمیان تھوڑی سی اختلافِ رائے کو سامراج بھی بڑھا چڑھا کر پیش کریگا۔
-4 جنگ ذدہ علاقہ جات میں قائم ہونے والی پارٹیوں کو واضح پالیسیاں بنانے میں بلاجواز دیر کرانے اور بیکار ترقی پسند خیالوں میں اُلجھانے اور قومی مسائل کی طرف سے دھیان ہٹانے کی کوشش کی جائیگی، اس کے علاوہ آزاد علاقوں کو جدید نو آبادیات میں تبدیل کرنے کی محلاتی سازشیں کی جائینگی۔
نکروما کے تجربات اور انقلابی جہدوجہد کی کامیابی کے تناظر میں دیکھا جائے اور بحثیت بلوچ سیاسی کارکن ذرا بھی غور کریں، یہ بات سمجھ میں آسانی کے ساتھ آئے گا کہ پہلے سوشل میڈیا شروع سے سیاسی کارکنوں کی توجہ مکمل عملی جہد سے ہٹانے، انہیں الجھنوں میں پھنسانے اور اپنے اصل ذمہ داریوں سے رافراریت کے ساتھ ساتھ دشمن کو بہت زیادہ فائدہ دے رہا ہے، تحریکی راز اور معلومات کے ساتھ ساتھ آپسی رسہ کشی، کردار کشی، الزام تراشیوں کے سبب بلوچ قوم اور جہدکاروں میں جو بدظنی اور مایوسی پھیل رہی ہے، اس کے تمام تر فائدے دشمن اور نقصان تحریک کا ہورہا ہے۔
قطع نظر علمی بحث، آگاہی و شعور اور دشمن کے خلاف پروپیگنڈہ جیسے مثبت اقدامات کے لیکن آپسی اختلافات تحریکی رازوں اور معلومات کو افشاں کرنا، دانستہ اور غیر دانستہ طور پر دشمن کے بیانیئے کو تقویت دینا، تحریک کے ساتھ سراسر دشمنی ہے۔ اب یہ دیکھنا کہ واقعی حقیقتاً جو ہورہا ہے یا یہ جو کچھ کر رہے ہیں، وہ تحریک کے خیر خواہ یا حصہ ہیں یا پھر بقول نکروما یہ صرف ظاہری وطن دوست انقلابی یا پھر خفیہ طور پر دشمن کے تحریک کو ختم کرنے اور کمزور کرنے کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں، اس حوالے سے تمام آزادی پسندوں کو سنجیدگی سے سوچنا اور پہچاننا ہوگا اور بہترین حکمت عملی ترتیب دینا ہوگا، نہیں تو تحریک آزادی مزید بڑے نقصان سے دوچار ہوگی۔