دلجان ایک نظریہ ہے – آئشمان بلوچ

433

دلجان ایک نظریہ ہے

تحریر: آئشمان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ کالم

میرا بلوچستان ایک بہت خوبصورت جنت ہے، اس کے خشک پہاڑ اور خالی پٹ و میدان اگر میری نظروں سے دیکھو، تو ان میں کھو جاؤ گے کیونکہ میرے دل میں وہ احساس پل رہے ہیں، جو میرے دھرتی کے ہر ذرے کو عظیم بناتی ہیں، میں نے احساس پایا ہے، میں محسوس کر سکتا ہوں، اپنی سرزمین کی ہواؤں میں پھیلا شوانوں کا وہ شور جو اپنے بزگل کو ہکل دیتا ہوا چلا جا رہا ہے. میں سب کچھ محسوس کر سکتا ہوں، ہاں! میں محسوس کر سکتا ہوں، اپنی بے بسی، لاچاری اور بزگی کو کیوںکہ مجھ میں احساس پالنے کا سوچ ہے۔ میں کوئی فرشتہ تو نہیں کہ میں یہ سب محسوس کرتا ہوں۔ میں تمہیں بتاتا ہوں کے یہ خاصیت مجھ می‍ں کیوں پیدا ہوا. ظاہر ہے انسان پیدا ہوتا ناسمجھی اور نادانی کو گٹی میں لیکر، اسے صرف اپنی ذات اور زندگی کی فکر رہتی ہے، میں بھی ایسے ہی تھا، پر میں بدل گیا، میں بدلتا نہیں بلکہ مجھے بدلا گیا۔ میری سوچ کو احساس اور فکر کی تربیت دیکر اسے شعور بنانے والا میرا مہربان دوست دلجان ہے۔

میں دلجان سے جب ملا، تب سے میں نے زندگی جیا ہے کیوںکہ بنا احساس اور شعور کے انسان نہیں حیوان جیتے ہیں دلجان وہ شخص ہے جو اندھیروں میں بھٹکے انسانوں کے ہاتھ میں مشعل تھما کر ان کے دل میں روشنی کی تلاش کی چاہ ڈال دیتا تھا۔ دلجان ایک بہتا دریا تھا، وہ چل پڑتا تو ہر سمت خشک پڑے کناروں کو سیراب کردیتا۔ دلجان احساسات کو زبان دینے کا استاد تھا. دلجان ایک مکمل انقلاب کا نام ہے، دلجان ہی نے مجھے وہ شعور بخشا جس کے بدولت میں آج اسکے نظریاتی کاروان میں شامل ہوں، دلجان نا ٹہرنے والا سوچ تھا، اسے بس اپنے دل میں لگی آگ سے لوگوں کو مشعل بنا کر دینا آتا تھا، دلجان اپنے منزل کا پیروکار تھا لیکن وہ جانتا تھا میری جنگ صرف سامنے کھڑے دشمن سے نہیں، ہر اس سوچ سے ہے جو میری قوم کو غلام بنائے رکھنے کی وجہ بنتی ہے، دلجان نے جب ہوش سنبھالا اسے غلامی کا احساس ہو چکا تھا، وہ سمجھ چکا تھا کے ہم غلام ہیں لیکن دلجان یہ بھی جان چکا تھا ہم صرف پاکستان کے نہیں بلکہ اپنے درمیان میں بیٹھے ذاتی سوچوں کے بھی غلام ہیں۔

دلجان کا تعلق ایک قبائلی علاقے سے تھا، باپ دادا قبائلی دشمنیوں کی وجہ سے سرداروں کے پناہ میں انکے سپاہی بن چکے تھے. نا خواندگی اور بے شعوری کی شرح قبائلی علاقوں میں زیادہ پائی جاتی ہے، وہاں لوگ نسل در نسل قبائلی سردار کے پیروکار بنتے ہیں۔ تعلیم سے دور دو وقت کی روٹی کے لیئے سردار کی جی حضوری کرتے ہیں لیکن پھر ایک وقت ایسا آیا کے دلجان کے والد نے سردار کی پناہ چھوڑ کر اسکی دی ہوئی سرکاری سپاہی گری کی نوکری واپس کرکے شہر کے طرف رخ کیا، اب یہاں سے وہ سوچ پروان چڑھا جو آنے والے وقت میں ان قبائلی سرداروں کے لیئے موت کا سامان بنا، یہاں سے ضیاء دلجان بنتا گیا، جو پارود کے چٹانوں پر شاہین بن کر دوستوں پر برسنے والے آگ کو اپنے بندوق سے موڑ دیتا۔ دلجان کی جنگی ٹیکنیک تو دشمن کی ناکامی کا سبب تھی ہی، ضیاء کی سوچ بھی بلوچ سیاست میں موجود پارلیمنٹ پرستوں کے لیئے ایک بیرئر ثابت ہوچکا تھا۔ وہ جب تک شہری سیاست میں تھا، تو وہ دشمن کے ہر عمل کو سمجھ کر، اس کے خلاف اپنے دوستوں کو تیار کرتا رہا، جب اس نے ایک قدم آگے بڑھا کر گوریلا جنگ میں قدم رکھا بھی تو زندگی میں اپنے لئے مقام پایا، قوم کا ٹک تیر ٹہرا۔

میں ضیاء کو کافی قریب سے جانتا ہوں، بچپن میں وہ عام سا شرارتی اور اپنے دنیا میں مشغول رہنے والا ضیاء ہر وقت اسکول میں فرسٹ آتا، ہر پروگرام میں اول پوزیشن لیکر میڈل اپنے نام کرتا پھر جوانی میں داخل ہوتے ہی اسنے بلوچ سیاست میں قدم رکھا، ضیاء ہر مقام پر کامیاب رہتا، سیاست کے دؤر میں علاقے کے پولیس کے لیئے سب سے بڑا درد سر بننے والا ضیاء کبھی اسکے ہاتھ نہیں لگا. ضیاء ہمیشہ دوست جمع کرکے احتجاج اور ہڑتال کامیاب کرواتا اور پولیس کو ہر ہڑتال اور احتجاج سے پہلے ضیاء کو گرفتار کرکے تنظیم کے ہڑتال ناکام کرنے کا ٹاسک ملتا اور یہ بات ضیاء اور اسکے دوست بہتر جانتے تھے، ایک دن ہڑتال سے پہلے پولیس کو خبر ملی کے ضیاء حب ندی کے پاس اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا کل کے ہڑتال کا پلاننگ کر رہا ہے، جب پولیس وہاں پہنچی تو ضیا کو وہاں سے نکلنا پڑا، جب اگلی صبح مجھے ضیاء ملے تو اسکے پیر زخمی تھے اور ہاتھ چہرے پر زخم کے نشان تھے، بتانے پر پتا چلا کے اسے وہاں کانٹوں کے اندر سے نکلنا پڑا، جس کی وجہ سے اس کا چہرہ زخمی ہوا، لیکن ان سب کے باوجود ضیاء اور اسکے دوست ہڑتال کامیاب بناتے۔

ضیاء آگے بڑھتا گیا، وہ کبھی رکنے اور پیچھے موڑنے والی سوچ نہیں رکھتا تھا، نا کے وہ کچھ ایسا عمل کرتا جو اسکے رستے میں پتھر بنکر اسے واپس موڑ سکے، وہ تو کامیاب انقلابی تھا، ضیاء ہمیشہ اپنے ہر عمل کو تب ترتیب دیتا، جب وہ اس عمل کے مستقبل کے اثرات کا جائزہ نا لیتا۔ ضیاء ہمیشہ آگے کی سوچ رکھتا۔

وہ وقت بھی آگیا کے ضیاء کو شہر چھوڑنا پڑا، شہر چھوڑنے سے پہلے کسی کو معلوم نہیں تھا کہ ضیاء کسی ایسے عمل کا حصہ ہے، جس کی وجہ سے اسے آگے چل کر شہر سے دور پہاڑوں کو اپنا مسکن بنانا پڑیگا، اسی دؤران میں نے ضیاء کے اکٹوٹیز پر غور کرنے لگا، وہ رات کو جاگے رہتا، جب تک وہ شہر میں تھا اور اسکے دوست دشمن کے ہاتھوں لگ چکے تھے، وہ سب سے الگ ہوکر چلنے لگتا. حکمت عملی تبدیل کرتا، چھپ چھپ کر دوستوں سے ملتا، ایک رات میرے ساتھ ٹہرنے آیا، پوری رات بیٹھے رہا، جب صبح ہونے لگی تو اپنے کمر پر بندھی 9mm پسٹل اتار کر سرہانے کے نیچے رکھا اور سوگیا میں سمجھ چکا تھا ضیاء کی اگلی منزل اب کس طرف ہے۔ ضیاء بغیر کچھ کہے میرے سامنے اپنا پسٹل کمر سے کھول کر سرہانے کے نیچے رکھ کر وہ مجھے کچھ دکھانا نہیں چاہ رہا تھا بلکہ سمجھانا چاہ رہا تھا کہ اب آگے چل کر ضیاء کیا بننے والا ہے. ضیاء کی منزل اب کس طرف ہے، وہ مجھے پختہ بنانا چاہتا تھا کیوںکہ ضیاء خود ایک کتاب تھا، اسے دیکھ کر بندہ پڑھ لیتا تھا کے وہ کیا بتانا چاہتا ہے۔

ضیاء نے جب شہر چھوڑا تو تین سال بعد میں پارود کیمپ اس سے ملنے گیا، پھر اکثر ہم کہیں ملتے تھے، جب وہ زہری آیا تو میں اس سے ملنے چلا گیا، ہماری دس منٹ کی ملاقات ہوئی اور ضیاء کو کسی نئے دوست سے ملنے جانا تھا، ضیاء مجھے ہمیشہ کہتا تھا علاقے کے دوستوں کو نظروں میں رکھو. انہیں دوست بناؤ اور میں بھی ضیاء سے وعدہ کر چکا تھا کہ میں اسے کچھ دوستوں سے ملواؤنگا، پھر میں نے اسے اپنے کچھ دوستوں کے نام دیئے اور ضیاء خود انسے حال حوال میں لگ گیا اور مجھے کچھ اور زمہ داریاں سونپ دیئے. کافی کوششوں کے بعد جب 18 فروری کو میں نے وہ کام پورے کیئے، میں دلجان کو بتانے میسنجر کھولا، تو وہ افلائن تھا رات کافی ہوچکی تھی، سوچا خیر صبح بتا دونگا۔ صبح جب دیر سے آنکھ کھولی تو دلجان کا میسج آیا تھا: “ہاں سنگت اپنی زمہ داری تو یاد ہے تمہیں، جلدی زمہ داریاں پوری کرو اور بھی کام ہے، کمزوری مت دکھاؤ، ہمت کرو۔” ان الفاظوں کے ساتھ 19 فروری دوپہر کے 3. 52 اسکا آخری سین تھا۔ وٹس ایپ پر پھر مجھے خبر ملی کے دلجان پر دشمن نے حملہ کردیا ہے اور زہری تراسانی سے گولیاں چلنے کی آوازیں آرہی ہیں، مسلسل تین گھنٹے کے بعد گولیوں کی آوازیں خاموش ہوگئیں اور فوج واپس چلا گیا۔ پھر ایک گھنٹے بعد زہری ہسپتال میں دلجان اور سنگت بارگ کی میت پہنچائی گئی اور خبر ملی کے دلجان شہید ہوچکا ہے، وہ لمحہ قیامت کا تھا لیکن نجانے آنسو آنکھوں سے آنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے، ایک دوست نے بتایا کے دلجان اور بارگ نے خود کی خود ہی گولی مار کر شہید ہوئے، تب فخر سے میرے اندر سے ایک شور باہر نکلا، میں نے ایک دیوان میں بیٹھے اپنے دوستوں کو چلا کر بتایا: “سنو! میرا دوست میرا دلجان، زہری میں دشمن سے لڑتے ہوئے آخری گولی خود کو مار کر شہادت نوش کرچکے ہیں. میرا بہادر دوست دلجان شہید ہوگیا، سب حیران و پریشان ہوگئے.”

اس دن پورا بلوچستان ویران تھا، سب کے دلوں میں دلجان دھڑک رہا تھا، سب مائیں دلجان کے جدائی پر اداس تھے، اس دن دلجان ہمیں سکھا کر گیا اپنے فرض پر اس وقت تک ڈٹے رہو، جب تک تم اس مقصد پر قربان ہوکر کامیاب ہوجاؤ، شاید وہ آخری گولی اسی لیئے چلی تھی کہ دلجان کے بندوق کی بیرل سے نکلی آواز ہمیشہ یوں ہی آخری گولی تک چلتی رہے، دلجان وہ کامیاب لیڈر تھا، جو پس پردہ رہ کر قومی تحریک کو منظم کرنے اور نئے دوستوں کو یکجا کرنے اور علاقے میں پھر سے دشمن کے لیئے خوف پیدا کرنے کا ہنر رکھتا تھا. اس نے ان ساری زمہ داریوں کا لاج رکھا. اسنے ہر مقام پر دوستوں کو یکجا کیا اور نئے دوست بنائے.

دلجان کامیاب ہوا دلجان ہر مقام پر کامیاب تھا، دلجان جاتے جاتے بھی کامیاب ہوگیا۔ دلجان نے اپنے بھائی حئی کا قول زندہ رکھتے ہوئے اسکے بندوق کی آواز کو زندہ رکھا اور اپنے دوست امیر جان کے راستے پر چلتے ہوئے دوستوں کو جمع کیا اور دلوش کو امانت سمجھ کر اسکے دوستوں کے پاس پہنچ گیا اور انہیں سنبھالتا گیا اور وہ کامیاب ہوگیا۔ تراسانی کے میدان میں جب وہ ایک عدد بندوق کے ساتھ تین گھنٹے میدانی جگہ پر لڑتے اپنے ہر گولی کا حساب رکھتے ہوئے جیت گیا، دلجان ایک نظریہ اور ایک سوچ بن گیا۔ اب اس کاروان میں شامل دوست دلجان کی دی ہوئی راہ پر نکل پڑے ہیں، اس روشنی کو لانے جس کا وعدہ دلجان نے اپنے ماں سے اسے لکھے آخری خط میں کیا تھا۔