خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اب تک ہزاروں افراد جانبحق اور ہزارہا دیگر بم دھماکوں، بارودی سرنگوں اور خود کش حملوں میں معذور ہوکر بے بسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
اگر چہ قبائلی علاقوں کی انتظامیہ کے پاس دہشت گردی کے باعث اور اس کے خلاف جنگ کے دوران معذور ہو جانے والے شہریوں سے متعلق کوئی باقاعدہ اعداد و شمار نہیں ہیں تاہم خیبر پختونخوا حکومت کا محکمہ سماجی بہبود اب تک ایسے ایک لاکھ انتالیس ہزار افراد کی رجسٹریشن کر چکا ہے، جو دہشت گردی کے دوران عمر بھر کے لیے معذوری کا شکار ہو گئے۔ معذوری کا شکار ہو جانے والے فاٹا کے شہریوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔
ان شہریوں میں مرد، خواتین اور بچے سبھی شامل ہیں۔ محکمے کے اعلیٰ اہلکاروں کا کہنا ہے کہ معذور افراد کی رجسٹریشن کا بنیادی مقصد ایسے متاثرین کی مدد کرنا اور انہیں معاشرے میں دوبارہ فعال کردار کا حامل بنانے کے لیے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دینا ہے۔ پشاور میں تمام محکموں میں معذرو افراد کے لیے ملازمتوں میں ایک کوٹہ مختص کیا ہوا ہے اور رجسٹرڈ معذور افراد ایسی ملازمتوں کے لیے درخواستیں دے سکتے ہیں۔
دوسری جانب بم دھماکو ں میں اپنے مختلف جسمانی اعضاء سے محروم ہ جانے والے شہریوں کے لیے سرکاری سطح پر کوئی ایسا ادارہ نہیں ہے، جو انہیں مصنوعی اعضاء فراہم کر سکے۔ نجی شعبے میں اس طرح کے علاج اور بحالی پر جتنے اخراجات اٹھتے ہیں، وہ کسی عام شہری کے بس کی بات نہیں ہیں۔
ایسے میں پشاور میں قائم ایک فلاحی ادارہ ان معذور شہریوں کو مصنوعی ہاتھ، بازو، ٹانگیں اور پاؤں فراہم کر رہا ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پروستھیٹک اینڈ آرتھوپیڈک سائنس عالمی ادارہ صحت، جرمن حکومت اور انٹرنیشنل ریڈ کراس کمیٹی کی مالی معاونت سے معذور افراد کے لیے مصنوعی اعضاء تیار کرنے اور انہیں لگانے میں مصروف ہے۔
ادارے کے مینیجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر عمر ایوب کا کہنا تھا، ’’پی پاس پی آئی پی او ایس نہ صرف خیبر پختونخوا بلکہ فاٹا، گلگت اور افغانستان سے آنے والے معذور افراد کو بھی علاج کی سہولت فراہم کر رہا ہے۔ بائیس ہزار افراد ہمارے پاس رجسٹرڈ ہیں۔ اس وقت تین ہزار افراد مصنوعی اعضاء کے لیے ویٹنگ لسٹ پر ہیں۔ ہم سالانہ چھ ہزار افراد کو مصنوعی اعضاء لگا سکتے ہیں۔‘‘
ان کا مزید کہا تھا کہ ایک شخص کو مصنوعی اعضاء لگانے میں ایک ماہ سے زیادہ عرصہ لگتا ہے۔ انہوں نے بتایا، ’’ہمارے پاس وسائل کم ہیں اور مریضوں اور ضرورت مندوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ہمارے ہاں سے تین سو طلبا و طالبات نے گریجویشن کی ہے۔ اگر حکومت بڑے ہسپتالوں میں یہی سہولت فراہم کرنا شروع کر دے، تو کئی مسائل جلد حل ہو سکتے ہیں۔‘‘
پی پاس کے پاس روازنہ پچاس کے قریب افراد آتے ہیں، جنہیں مناسب مشورے دیے جاتے ہیں۔ مصنوعی اعضاء مکمل طور پر فٹ ہوں، اس کے لیے کئی ہفتے درکار ہوتے ہیں۔ اس ادارے میں آنے والوں میں مہمند ایجنسی کا امیر عالم بھی شامل تھا، جس کا کہنا تھا کہ ’’چھ سال قبل ایک بم دھماکے میں میرا ایک پاؤں ضائع ہو گیا۔ سرکاری ہسپتال میں علاج کے بعد مجھے وہاں سے رخصت کیا گیا تو پھر دو سال تک میں اپنے گھر پر ہی پڑا رہا۔ پھر کسی نے مجھے پی پاس جانے کا مشورہ دیا۔ یہاں میں نے اپنی رجسٹریشن کرائی کیونکہ کسی نجی ہسپتال میں مصنوعی پاؤں لگوانے کا خرچ میں برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ یہاں انہوں نے میری مدد کی۔ اگرچہ اب بھی معمولی تکلیف ہے تاہم اس ادارے نے چلنے پھرنے میں میری مدد تو کی۔ اب میں مطمئن ہوں کہ ایک نہ ایک دن میری یہ معمولی تکلف بھی ختم ہو ہی جائے گی۔‘‘