حقیقی قیادت کی خلاء اور کیڈر کی ذمہ داریاں
حکیم واڈیلہ
دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم
ہمارا یہ سیارہ عظیم الشان انسانوں سے کبھی خالی نہیں رہا ہے۔ عظیم الشان انسان ہی کایا پلٹنے کا ذریعہ بنتے ہیں، عظمت کے یہ مینار ہی دراصل کامل انسان ہوتے ہیں۔ ان کے بارے میں یہ رائے بھی ہے کہ یہ اپنے وقت سے پہلے پیدا ہوتے ہیں۔ اسی لیئے وقت سے پہلے چلے جاتے ہیں۔ ان کی زندگی اتنی تیز ہوتی ہے کہ عقل دنگ رہ جاتا ہے۔ ان کے ویژن بے پناہ وسعتوں سے لبریز ہوتی ہے۔ یہ ہوا میں ٹامک ٹوئیاں نہیں مارتے۔ یہ چونکہ، چنانچہ، اگر مگر، حالانکہ اور کیونکہ جیسے مشگافیوں میں نہیں پڑتے۔ ان کی زندگی باوقار عمل سے بھرپور ہوتی ہے۔ وہ خود ستائی، نمود و نمائش سے کوسوں دور ہوتے ہیں، ان کی آدرش اور امنگیں اپنی قوم اور اپنے عوام کی ترجمان ہوتے ہیں، وہ نفس پرور اور نفس پرست نہیں ہوتے۔ ان کے فکر و آرزو اجتماعیت کے واضح غماز ہوتے ہیں۔ تھکن، بوکھلاہٹ، موقع پرستی ان کے خمیر میں شامل نہیں ہوتی۔ جرات ، بہادری ، بے باکی، سچائی، انصاف، خوداری ان کا طرہِ امتیاز ہوتے ہیں، وہ نامساعد حالات سے گھبراتے نہیں بلکہ ساز گار حالات خود پیدا کرتے ہیں۔ وہ ایڑیا رگڑ رگڑ کر زندگی نہیں گذارتے بلکہ ان کے قدم شان و شوکت کے ساتھ اٹھتے ہیں کیونکہ وہ شان والے ہوتےہیں۔
ہمارے شہید قائد واجہ غلام محمد بلوچ ایک کامل، عظیم الشان انسان اور باوقار و دلیر رہنما تھے۔ واجہ شہید قائد کبھی تاویلیں پیش نہیں کرتے، بہانے بازیاں نہیں کیں، ان کا ہر اقدام بلوچ قومی آزادی کو مستحکم کرتا رہا۔ تاریخ رقم کرنے والے ہمارے اس عظیم قائد نے دن رات ایک کردیئے۔ ان کا جوش و جذبہ اتنا ولولہ انگیز تھا، جس نے تحریک کو بام عروج تک پہنچادیا۔ شہید قائد کی کرشماتی شخصیت انہیں بلوچ قوم کے دلوں کا دھڑکن بنادیا۔ تاریخ میں پہلی بار قدرت نے بلوچ قوم کو ایک ایسا رہنما فراہم کیا جو خود بھی عام عوام سے ابھر کر سامنے آیا تھا۔ واجہ شہید قائد کوئی سردار و نواب نہیں تھے، اسی لیئے بلوچ قوم کے درد و دکھ کو بہت زیادہ جانتے تھے اور محسوس کرتے تھے۔ واجہ شہید قائد کی شبانہ روز جدجہد نے تھوڑے ہی عرصے میں بلوچ قومی آزادی کی تحریک کے ہر فرت کو ایک ہی لڑی میں پرو دیا۔ بلوچ نیشنل فرنٹ کو تشکیل دیکر تمام آزادی پسند پارٹیوں کو ایک ہی پلیٹ فارم پر یکجا کیا۔ شہید قائد کی یہ آرزو تھی کہ بلوچ نیشنل فرنٹ آگے چل کر ایک سنگل ماس پارٹی کی شکل اختیار کرے، یہ تھے ہمارے شہید قائد جو تحریک کو ٹکڑیوں میں نہیں بانٹنا چاہتے تھے، بلکہ تحریک کی مظبوطی چاہتے تھے۔ واجہ شہید قائد تنقید کو خندہ پیشانی سے قبول کرتے تھے اور کارکنوں پر زور دیتے تھے کہ سوالات کریں۔ سوالات و تنقید کے بغیر تحریک میں نیا پن پیدا نہیں ہوگا۔ حتیٰ کہ بعض اوقات واجہ شہید کے ذات پر بھی تنقید ہوتی اور ہمارے قائد اپنی خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ تنقید سہہ جاتے تھے۔ آپ نے کبھی بھی تحریک سے وابسطہ کسی بھی شخص کو غدار اور دشمن کا خطاب نہیں دیا۔
آیئے ایک اور عظیم ہستی کی طرف اور یہ ہستی ہیں معلم آزادی واجہ شہید قندیل( استاد صباء دشتیاری) جو تحریک آزادی کے یونیورسٹی تھے۔ شہید استاد نے تحریک آزادی میں عملی کردار ادا کرکے نام نہاد دانشوروں کی دھجیاں اڑادیں۔ یہ نام نہاد دانشور تاویلیں پیش کرتے ہیں کہ ادیبوں اور دانشوروں کا سیاست سے کیا کام۔ دراصل یہ بات کرتے ہوئے بھی وہ سیاست کررہے ہوتے ہیں لیکن ان جاہلوں کو اس بات کا ادراک نہیں ہوتا۔ عظیم استاد اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ “میری قوم حالتِ جنگ میں ہے اور میں بیٹھکر شعر و شاعری کی محفلیں سجاؤں یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا۔” عظیم استاد نے اپنی جان کا نذرانہ دیکر ان منافقوں کے منہ پر زور دار طمانچہ رسید کردیا، جو خود کو بڑے زبان دوست اور بلوچی زبان کے اسکالر کہتے اور باتیں ایسے کرتے جیسے ساری قوم کا درد ان ہی کے دل میں ہے، لیکن عمل کا وقت آتا ہے تو بھاگ جاتے اور بہانے بازیاں کرتے ہیں۔ ان نام نہاد دانشوروں کو یہ تک معلوم نہیں کہ عظیم استاد نے شعوری طور پر تحریک میں شامل ہوکر اپنا قومی اور تاریخی فرض ادا کردیا اور تاریخ میں امر ہوگئے۔
یوں تو تحریک آزادی کی عظیم جدوجہد میں ہمارے شہدا کا لامتناہی سلسلہ ہے، جو بلوچ قوم اور بلوچستان کی آزادی کیلئے جانیں نچھاور کرگئے۔ ان دو عظیم ہستیوں کا تذکرہ اس لیئے کررہا ہوں کہ رہنمائی کے جو تقاضے ہوتے ہیں ان پر ہمارے یہ عظیم رہنما بلکل پورے اترے۔ ان کی جدوجہد ہم سب کےلیئے مشعل راہ ہیں۔ ہم ان ہی عظیم ہستیوں کے وارث ہیں۔ ہم ان عظمت کے میناروں کے نقشِ قدم پر چل کر ہی کامیابی اور کامرانی کی منزل پر پہنچ پائیں گے ۔ عظمت اس وقت ملتی ہے کہ قدموں میں لرزش پیدا نہ ہو کیونکہ باہمت انسان ہی اس دنیا میں کچھ کرگذرتے ہیں اور فتح اس کی ہوتی ہے جس میں جرات ہو۔
بلوچ قومی تحریک انقلابی ہے، یہ کسی فرد، شخصیت یا قبیلے کا محتاج نہیں ہے اور نہ ہی ہمیں کسی کے قبیلے سے کوئی تعلق یا واسطہ ہے اور نہ ہی ہم کسی کے قبیلے کو برا بھلا کہہ سکتے ہیں، بلکہ ہم اجتماعی قومی امنگوں اور خواہشات پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ہمارے ان رہنماؤں کا طبقاتی مفاد انہیں اس بات کی اجازت نہیں دے رہا ہے کہ یہ مزید آگے بڑھیں اگر ایسی بات ہے تو ٹھیک ہے، لیکن ہمیں غدار کہنے سے پرہیز کریں، کیونکہ واجہ شہید قائد کے پیروکار تحریک، وطن اور شہدا کے مقدس لہو اور بلوچ کے ساتھ غداری کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔
انسانی تاریخ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ زیر دست اور زبردست قوتوں کے درمیان تصادم ہروقت برپا رہا ہے۔ تہذیب و تعمیر کے رنگ ہر سمت نمایاں رے ہیں، خوبصورتی اور بد صورتی کے درمیان بھی قیمتی مہرکا آرائیاں جلوہ افروز ہوتے رہے ہیں۔ وقت نے تمام حالات و واقعات کو اپنے وسیع دامن میں سمیٹ کر تاریخ کے تلخ پہرانے پہناکر انسانی ذات کیلئے سبق آموز بنا دیا۔ وقت کی تیز اور ٹھاٹھیں مارتے لہریں ہر چیز کو خس و خاشاک کی طرح بہاکر تاریخ کے وسیع سمندر کے حوالے کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ وقت کی لہروں کو نہ کسی کی خواہش روک سکتی ہے اور نہ آرزو کی دیوار کھڑی کرکے بند باندھا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ خارجی حالات اس کے تابع و فرمانبردار ہوں اور اگر کوئی اس سوچ میں مبتلا ہے کہ میں ہی سب کچھ ہوں اور میری باتیں ہی سب کو ماننی پڑیں گی، تو اس نتور عقل کو چاہیئے کہ کسی ماہر نفسیات سے رجوع کریں یا انسانی معاشرے کو چھوڑ کر کسی غیر مرئی، مافوق الفطرت معاشرے یا دنیا کی تلاش شروع کریں، کیونکہ اس انسانی دنیا اوراس عظیم وسیع کائنات میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور نہ ہی خارجی حالات کسی کے تابع ہوسکتے ہیں۔ اس وسیع و عریض کائنات میں ہمارے اس سیارے پر زندگی رواں دواں ہے اور جب تک اس سیارے پر گردشِ ایام رہے گی، تب تک زندگی کی رعنائیاں اپنے حسن و جمال کے ساتھ قائم رہیں گی۔ کسی کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہاں لوگوں کے اس جم غفیر میں عظیمِ الشان انسان جنم لیتے رہے ہیں اور پیدا ہوتے رہیں گے، یہی کامل انسان ہیں، گو کہ عظیم انسان صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں لیکن ہمارا یہ سیارہ کبھی بانجھ نہیں ہوا۔
ہم آج اپنے موجودہ رہنماؤں پر نظر دوڑاتے ہیں، تو ان کے گرد درباریوں کا ٹولہ دیکھتے ہیں۔ یہ رہنما یہ سمجھتے ہیں کہ سب ہی درباری اور جی حضوری ہیں۔ ہمارا سیدھا جواب یہ ہے کہ ہم بلوچ قوم اور اپنے آئندہ آنی والی نسلوں اور تاریخ کو جواب دے ہیں۔ ہم کسی شخصیت کے مرہونِ منت نہیں ہیں۔ آج ان رہنماؤں نے اپنا سودا بڑے سستے داموں کیا ہے، لیکن بلوچ قومی تحریک جاری و ساری رہیگی۔ مگر بلوچ قوم کے شہدا کے وارثین اور تاریخ ان رہنماؤں کو کبھی معاف نہیں کریگی۔ میں اپنے تمام دوستوں کو دعوت دیتا ہوں کہ آیئے ثابت قدمی کے ساتھ آگے بڑھیں، ان چوغہ دار رہنماؤں کو ان کے حال پر چھوڑیں کیونکہ یہ قابض ریاست کے ساتھ ڈیل کرچکے ہیں۔ اب آیئے، ہم سب اپنے عظیم سرمچاروں کی جدوجہد کو سلام پیش کرتے ہوئے مندرجہ ذیل اقدامات اٹھائیں۔
1 ۔ جبری الحاق کو چیلنج کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں بلوچ قومی سوال کو اٹھایں اور 11 اگست 1947 ء والی پوزیشن پر درخواست دائر کریں۔
2 ۔ پاکستانی ریاستی جنگی جرائم کو عالمی عدالت انصاف اور جنیوا کنوینشن کے تحت اور اقوام متحدہ کے کلاز گیارہ کے تحت پاکستانی ریاست پر مقدمہ درج کریں۔
3 ۔ امریکہ اور یورپی یونین کے پارلیمانی نمائندوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے مسلسل رابطے میں رہ کر بلوچستان کے حقیقی صورتحال کو پیش کریں۔
4۔ ہمیں امریکہ اور یورپی یونین سے اتحاد کی تشکیل پر عمل کرکے قومی تحریک کو امریکہ اور یورپ کا اتحادی بنانا ہوگا ۔
یہ چند گذارشات، جن پر ضرور عمل کرنا چاہیئے۔ ہم نے متعدد بار ان رہنماؤں کو ڈرافٹ پیش کرکے ان نکات پر جدوجہد کی سفارش کی لیکن ہمارے رہنما ٹس سے مس نہ ہوئے۔ اب یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ان کا مقصد کچھ اور تھے۔