مکران سمیت بلوچستان کے بیشتر علاقے ابھی تک حالات کی ناسازی کے سبب الیکشن کے لیے سازگار نہیں ہیں تربت میں الکیشن لڑنا موت کو گلے لگانے جیسا ہے پچھلے الیکشن اور اس سے قبل نیشنل پارٹی نے مسلح آزادی پسندوں کے ہاتھوں کافی نقصان اٹھایا ہے جبکہ اس بار بھی الیکشن اتنا آسان نہیں جیسا خیال کیا جارہا ہے
دی بلوچستان پوسٹ ویب ڈیسک کو ملنے والے اطلاعات کے مطابق نیشنل پارٹی کے رہنما اور بلوچستان کے سابق وزیر اعلی ڈاکٹر مالک نے تربت میں اپنی پارٹی کی جانب سے منعقدہ ضلع کونسل کے اجلاس میں سنیئر کارکنوں اور پارٹی کے عہدہ داروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ مکران سمیت بلوچستان کے بیشتر علاقے ابھی تک حالات کی ناسازی کے سبب الیکشن کے لیے سازگار نہیں ہیں تربت میں الکیشن لڑنا موت کو گلے لگانے جیسا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے الیکشن اور اس سے قبل نیشنل پارٹی نے مسلح آزادی پسندوں کے ہاتھوں کافی نقصان اٹھایا ہے جبکہ اس بار بھی الیکشن اتنا آسان نہیں جیسا خیال کیا جارہا ہے کیوںکہ اسٹیبلشمنٹ مسلح تنظیموں کی صحیع طاقت کا اندازہ نہیں لگا رہی بلکہ ظاہری خاموشی کو دیکھ کر سمجھ رہی ہے کہ حالات مکمل کنٹرول میں ہیں جو ایک بھونڈا خیال کے سوا کچھ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم سٹہ لگانے کے بجائے زمینی حقائق کے مطابق بات کرتے ہیں اگر کسی کو پسند نا آئیں تو ہم پر کوئی فرق نہیں پڑتا کیوںکہ باپ جیسی پاڑٹیاں بنا کر واضح طور پر یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اصل عوامی مینڈیٹ چوری کی جائے گی اور حقیقی عوامی نمائندوں کے بجائے پیدا گیر غیر سیاسی عوام دشمن افراد کو مسلط کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ حالات اس قدر سازگار نہیں کہ طالع آزما اور سہل پسند لوگوں کو الیکشن کے نام پر منتخب کیا جائے گوکہ نیشنل پارٹی مسلح تنظیموں کے ساتھ دوران اقتدار اور اس سے قبل صبر آزما طویل جنگ لڑ کر کچھ بہتری لانے کی کوشش کی ہے جس کا اب فائدہ اٹھا کر نادیدہ قوتیں سمجھ رہی ہیں کہ الکیشن کے لیے فضا ہموار ہوگئی ہے اور وہ آسانی کے ساتھ اپنے مہروں کو عوامی نمائندگی کے طور پر منتخب کراسکتے ہیں مگر ایسا ہر گز نہیں کیوںکہ نیشنل پارٹی کو اندازہ ہے کہ مسلح تنظیموں کے پاس اب بھی اس قدر قوت ہے کہ وہ الکیشن کو بری طرح متاثر کر سکتی ہیں جیسا کہ پچھلے الکیشن 2013 میں ہوا تھا۔
انہوں نے کہا کہ نیشنل پارٹی ہر صورت میں انتخابی عمل کا حصہ بنے گی لیکن اس بار کارکن مذید جوش اور جذبے کے ساتھ سامنے آئیں کیوںکہ اس بار نا صرف ہمیں غیر ساسی افراد کے ساتھ مقابلہ کا سامنا ہے بلکہ باپ کی صورت میں عسکری اسٹیبلشمنٹ اور بڑی طاقت کے طور پر بلوچ آذادی پسند تنظیموں سے بھی مقابلہ کا سامنا ہے یہ تینوں قوتیں الگ الگ فکر و نظریہ کے ساتھ صرف نیشنل پارٹی کو نقصان دینے کی کوشش کرینگے۔
انہوں نے کہا کہ مسلح تنظیموں کو اپنا غیر جمہوری رویہ ترک کرنا ہوگا وہ گوکہ ایک سوچ کے تحت کام کررہے ہیں لیکن ان کا ہدف دیگر پارلیمانی پارٹیوں کے بجائے صرف نیشنل پارٹی ہونا المیہ ہے کیوںکہ پچھلے تمام ادوار اور اب بھی دوسری سیاسی جماعتوں یا غیرسیاسی پارٹیوں جن کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ وہ کون اور کس کے پروردہ ہیں کھلے عام سرگرم ہیں۔
انہوں نے کارکنوں کو ہدایت کہ وہ مرعوب ہونے کے بجائے بھرپور الیکشن کی تیاری کریں تاکہ کسی کو عوام کا مینڈیٹ چرانے کی جرات نہ ہوسکے ۔