جلتا بلوچستان
تحریر: فیصل بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ : کالم
ستائیس مارچ 1948ء کوجب بلوچستان پر بزور طاقت قبضہ ہوا تب سے لیکر آج تک بلوچستان جل رہا ہے، بلوچستان پر قبضے سے لیکر آج تک باشعور، غیرت مند اور بہادر بلوچوں نے مختلف مراحل میں بغاوت کرکے قبضہ گیر پاکستان کو بتایا ہے کہ بلوچستان پاکستان کے لیئے تر نوالہ نہیں بنے گا۔ پہلے آغا عبدالکریم خان پھر بابو نوروز خان زرکرزئی اپنے مشہور ساتوں شہداء ساتھیوں کے ساتھ پھر شیر محمد مری عرف جنرل شیروف وغیرہ وغیرہ نے قبضہ گیر کو نیست و نابود کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اس دوران قبضہ گیر پاکستان نے ظلم و ستم کی انتہاء کردی، بلوچ باغیوں کے ساتھ ساتھ عام بلوچوں کو بھی ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا، لوگوں کو پکڑ کر ہیلی کاپٹروں کے ذریعے آسمان کی بلندیوں میں لے جاکر نیچے پھینکنا، گرم کھولتے ڈامر کے ڈرموں میں زندہ بلوچوں کو ڈال کر اوپر سے ڈھکن بند کرکے مزید آگ پہ رکھ کر جلانا، جس گاؤں یا شہر میں پہنچتے وہاں پاکستانی فوج کا تباہی پھیلانا، گھروں میں لوٹ مار کے بعد گھروں کو جلانا عورتوں اور بچیوں کے ساتھ بدتمیزی کرنا، انکی بے حرمتی کرنا، کھڑی فصلوں کو آگ لگا دینا یا پھر پاکستانی فوجیوں کا کھیتوں میں گھُس کر اپنے مخصوص فوجی بوٹوں کے ذریعے لتاڑ کر فصلیں تباہ و برباد کرنا، پاکستان کا پسندیدہ مشغلہ رہا ہے۔
ظلم و ستم اور استحصال کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہ دینا، بلوچوں کو بلا وجہ مارنے پیٹنے، اغواء کرکے ٹارچر سیلوں میں انسانیت سوز مظالم ڈھانے، عورتوں اور بچیوں کو اغواء کرکے جسمانی اور جنسی تشدد کرنے، ظلم و ستم کے سارے حربے استعمال کرنے سے ریاست کا دل نہ بھرا تو مقبوضہ بلوچستان کو جوہری تجربات کا نشانہ بنایاـ
28 مئی 1998ء سے پہلے دنیا نے ایٹم بم کی تباہ کاریاں صرف جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی میں دیکھا تھا، جہاں لاکھوں انسان لقمہ اجل بن گئے تھے، اس سے پہلے انسانی آنکھ نے ایسی تباہی کہیں نہیں دیکھی تھی اور نہ سنی تھی۔
جہاں ایٹم بم گرتا ہے، وہ علاقہ صفحہءِ ہستی سے مٹ جاتا ہے۔ ایٹم بم کے متاثرہ علاقوں میں سینکڑوں میلوں تک پھر جاندار چیز پیدا ہی نہیں ہوتا، وہ زمین و پہاڑ جل کر خاک بن جاتے ہیں۔ جہاں ایٹم بم گرتا ہے، سینکڑوں میلوں تک آکسیجن کا نام و نشان مٹ جاتا ہے، وہاں موجود ہر شے تباہ و برباد ہوجاتے ہیں، اس لیئے دنیا میں جہاں کہیں کوئی ریاست ایٹمی تجربے کرتا ہے تو ان کو ٹیسٹ کرنے آزمانے کیلئے اپنے ملک و ریاست کے سب سے ویران اور انسانی آبادی سے قریباً چار،پانچ سو میل دور علاقے کا انتخاب کر کے اُس ویرانے میں آزماتا ہے۔
انسانی آبادی سے دور اور بنجر و ویران زمین ہونے کے باوجود حفاظتی تدابیر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، اس تجربے کیلئے زیرزمین گہرے، مضبوط اور پیچیدہ سرنگیں کھودی جاتی ہیں تاکہ ایٹمی تابکاریں باہر نکل کر ہوا میں شامل نہ ہوجائیں جس سے کوئی جان و مال متاثر ناہو۔ چند ممالک نے اپنے ایٹم بم سمندر میں آزمائے، جن کے خلاف بہت ہنگامہ ہوا، جانوروں کے حقوق کے اداروں نے انکے خلاف اقوامِ متحدہ میں آواز بلند کی، انکا کہنا تھا کہ سمندر میں ایٹمی تجربے کرنے سے آبی جانوروں کی نسل کُشی ہوئی ہےـ
مقبوضہ بلوچستان کے علاقے چاغی کے کوہِ راسکوہ پر جب قابض ریاست پاکستان نے ایٹمی تجرے کیئے، اس وقت انسانی حقوق کے ادارے کہاں تھے؟ اقوامِ متحدہ ویسے بھی ایٹمی ریاستوں کا کٹھ پُتلی بن کر رہ گیا ہے، پہلی بات یہ کہ پاکستان کو کس نے اجازت دی کہ وہ مقبوضہ بلوچستان میں ایٹمی تجربے کرے؟ ٹھیک ہے مقبوضہ علاقہ ہونے کی وجہ سے بلوچ عوام میں اتنی طاقت نہ تھی کہ قابض کو یہ گھناؤنا حرکت کرنے سے روک سکیں۔ اس وجہ سے قابض کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں تھی تو جیسا قابض کا دل چاہا ویسا ہی کیا، مقبوضہ بلوچستان کے سینے پہ وار تو کیا لیکن اُس کے انتظامات کیوں ناقص تھے؟ کیوں انسانی حقوق کے چیمپیئن عالمی اداروں نے پاکستان کے ایٹمی تجربے کے لیئے ناقص انتظامات کا نوٹس نہیں لیا؟ کیا بلوچ قوم انسان نہیں ہیں یا انسانیت کے زمرے میں نہیں آتے؟عام آبادی کے بیچوں بیچ ایٹمی دھماکے کرنے پہ پاکستان کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لیا گیا؟
چار،پانچ سو میل دور کی بات ہے، جس مقام پہ قابض نے ایٹمی دھماکے کیئے اُس مقام کے آس پاس چار، پانچ میل کے فاصلے پر درجنوں گاؤں اور بستیاں آباد تھیں، عام بلوچ آبادیاں واقع تھیں اور ایک نہیں سات سات دھماکے کیئے گئے، جب کہ پہاڑی میں سرنگیں بھی برائے نام تھی کیونکہ جس روز دھماکے ہوئے اُس کے اگلے روز سے چاغی اور اس کے ملحقہ علاقوں میں ایٹمی تابکاریوں کی وجہ سے بیماریوں اور اموات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
ایٹمی تابکاریوں کی وجہ سے جِلد، گلہ، ناک اور کان کی بیماریاں دمہ، ٹی بی اور ہیپاٹائٹس کے ساتھ ساتھ کینسر جیسے موذی بیماریاں پھیل گئیں۔ سینکڑوں بوڑھے، جوان، مرد ، عورتیں اور بچے مختلف امراض کا شکار ہوکر شہید ہوگئے ان سب کا ذمہ دار کون ہے؟ پاکستان یا اقوامِ متحدہ یا مہذب ممالک یا پھر انسانی حقوق کے عالمی ادارے چاغی کے آس پاس سو میل تک علاقے متاثر ہوگئے۔
وہ باقی ماندہ مال مویشیاں جو ایٹمی دھماکوں سے چند دن پہلے سیکیورٹی کے نام پہ آنے والے پاکستانی فوج کے ہاتھوں لوٹ مار سے بچ گئے تھے یا پہاڑوں میں معمول کے مطابق گھاس چَر رہے تھے، ایٹمی تابکاریوں کا نشانہ بن کر ہلاک ہو گئے۔ لیکن جب بات آتی ہے مقبوضہ بلوچستان پر پاکستان کے ایٹمی دھماکے کرنے کی تو ہمیں دیکھنا اور جانچنا پڑتا ہے کہ پنجابیوں نے اپنے جدی پُشتی پنجاب کو چھوڑ کر مقبوضہ سندھ، متنازعہ خیبر پختونخواہ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو چھوڑ کر بلوچستان کے سینے پر وار کیوں کیا؟
کیونکہ بلوچستان وہ واحد مقبوضہ علاقہ ہے، جس نے اپنے قبضے سے لیکر آج تک مختلف مرحلوں میں پاکستان کے قبضے کو چیلنج کرتے ہوئے مسلح بغاوت کرتا آیا ہے، گو کہ اپنے ناقص حکمتِ عملی، نا اتفاقی اور ناچاقی کی وجہ سے اپنے اوپر قبضے کو ختم نہ کرسکے لیکن پاکستان کیلئے آنے والے وقتوں میں لوہے کا چنّا بنتا نظر آرہا تھا۔ ایک بلوچ سرزمین کی قدرتی خزانوں کے دولت سے مالا مال ہونا، دوسرا بلوچ بغاوت کا بار بار سر اُٹھانا بلوچ وطن پر ایٹمی دھماکوں کا سبب بن گیا، کیونکہ مقبوضہ سندھ میں مزاحمت ہے لیکن کمزور ہے خیبرپختونخواہ میں مزاحمت ہی نہیں ہے۔ آزاد کشمیر کے بارے میں میرے ایک دوست جو کہ پاکستان آرمی کا حاضر سروس حوالدار رینک کا ملازم ہے کہتا ہے کہ آزاد کشمیر کا وزیراعظم برائے نام ہے، وہاں کا انتظام ہمارا کرنل چلاتا ہے۔
اب جبکہ مذکورہ علاقوں سے پاکستان کو کوئی خطرہ ہی نہیں تھا، تو بلوچ قوم کو خوفزدہ کرنے اور بار بار کے مزاحمت کو کچلنے کیلئے مقبوضہ بلوچستان کے دل پر وار کردیا، ریاست کو کیا پتا تھا کہ وہ جس مزاحمت کو کچلنے مقبوضہ بلوچستان کے سینے پر ایٹم بم سے وار کررہا ہے، اس مزاحمت کا اگلا اور خطرناک مرحلہ اس کے سر پر آن پہنچا ہے۔ جب وہ ایٹم بم کے کامیاب تجربے پر آپس میں مٹھائیاں تقسیم کر رہے تھے، تب مری ہاوس نیو کاہان میں بابا خیر بخش مری،استاد واحد قمبر، استاد اسلم بلوچ اور شہید غلام محمد بلوچ جبکہ بولان میڈیکل کالج کے سرکلز میں ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ، شہید ڈاکٹر منان بلوچ،شہید ڈاکٹر کمبر قاضی، اسیر ڈاکٹر دین محمد بلوچ بلوچستان یونیورسٹی میں چیئرمین خلیل بلوچ، چیئرمین بشیرزیب بلوچ، چیئرمین زاھد جان اور ذاکر مجید بلوچ وغیرہ وغیرہ اپنے نوجوانوں کے ساتھ پاکستان کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک رہے تھے۔ ایک نئی اور منظم مزاحمت کی بنیاد رکھ رہے تھےـ
جس ایٹم بم سے قابض ریاست بلوچ قوم کو خوفزدہ کرکے اپنے حاکمیت کو طول دینا چاہتا تھا، اُس ایٹم بم نے ہر بلوچ نوجوان کو ایٹم بم بنا دیا، اُس ایٹم بم نے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائیزیشن (BSO) کو ہاسٹل، کمرہ، روڈ اور نالی کی سیاست سے نکال کر بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائیزیشن ـ آزاد بنا دیا۔ جس نے ہر قسم کی سیاست کو چھوڑ کر آزاد بلوچستان کا نعرہ لگا دیا، ہر نوجوان کے دل کی دھڑکن بنادیاـ
اُس ایٹم بم نے بلوچ نیشنل موومنٹ کو پارلیمنٹ جیسے غلیظ ادارے، موروثی سیاسی پارٹی سے نکال کر ایک آزادی پسند اور قومی پارٹی بنادیاـ اُس ایٹم بم نے سردار اختر مینگل، ڈاکٹر مالک، حاصل بزنجو، ثناء زہری اور اسلم رئیسانی جیسے پیٹ پرست، منافق، دوغلے اور غدار لوگوں کا مکروہ چہرہ اور حقیقی روپ بلوچ قوم کے سامنے عیاں کردیا۔