دی بلوچستان پوسٹ سوشل میڈیا رپورٹر کے مطابق بلوچ ریپبلکن پارٹی کے سربراہ اور شہید نواب اکبر خان بگٹی کے پوتے براہمدغ بگٹی نے سماجی رابطے کے ویب سائٹ ٹوئیٹر پر ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ “انہوں نے کبھی بھی بھارت میں سیاسی پناہ کی درخواست نہیں دی ہے اور اسے بھارت میں پناہ کی ضرورت بھی نہیں ہے۔”
I never applied for political asylum in India nor do i need it. . I already have protection in Switzerland. @Abdul_Bugti @MurtazaGeoNews @RaghavMalhothra
— Brahumdagh Bugti (@BBugti) May 4, 2018
براہمدغ بگٹی نے مزید کہا ہے کہ ” انہیں پہلے سے ہی سوئیٹزرلینڈ میں تحفظ حاصل ہے۔”
براہمدغ بگٹی بھارت میں سیاسی پناہ کے حوالے سے اس سے پہلے مختلف موقف رکھتے تھے، انہوں نے اپنے پارٹی بلوچ ریپبلکن پارٹی کے ہمراہ سنہ 2016 میں سوئیٹزر لینڈ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے پارٹی بلوچ ریپبلکن پارٹی کی سینٹرل کمیٹی نے باقاعدہ فیصلہ کیا ہے کہ براہمدغ بگٹی بھارت میں سیاسی پناہ کا درخواست دیں گے۔ وہ اس حوالے فوری طور پر بھارتی سفارت خانہ جائیں گے اور جو بھی ضروری کاغذی کاروائی ہوگا وہ کریں گے، انہوں نے نا صرف اپنے لیئے بھارت میں سیاسی پناہ کی درخواست کی بات کی تھی بلکہ انکا کہنا تھا کہ وہ ان بلوچوں کیلئے بھی درخواست دینگے جو اسوقت افغانستان اور بلوچستان میں ہیں۔
مزید پڑھیں:
بھارت میں سیاسی پناہ کی درخواست دوں گا، براہمداغ بگٹی کے پریس کانفرنس کے حوالے سے ڈی ڈبلیو کی رپورٹ
مزید دیکھیں:
براہمدغ بگٹی کا بھارتی سفارت خانے کے باہر میڈیا سے گفتگو
براہمدغ بگٹی اپنے حالیہ ٹویٹ میں کہتے ہیں کہ انہیں بھارت میں سیاسی پناہ کی کوئی ضرورت نہیں، اسی ضرورت کے حوالے سے انہوں نے اس سے قبل اپنے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ “میں باقاعدہ طور پر ہندوستان میں سیاسی پناہ کی درخواست دوں گا۔ سوئٹزرلینڈ میں چھ سال تک سیاسی پناہ کی درخواست زیر سماعت رہنے کے باوجود سفری دستاویزات نہیں مل سکے، جس کے باعث بلوچستان میں بلوچوں کی نسل کشی اور مظالم کے حوالے سے بین الاقوامی آگاہی پھیلانے اورعالمی سطح پر اس سلسلے میں راہ ہم وار کرنے میں مشکلات درپیش ہیں۔”
یاد رہے اس سے پہلے بھی براہمدغ بگٹی مختلف مسائل پر موقف تبدیل کرنے کی وجہ سے بلوچ آزادی پسند حلقوں میں ہدفِ تنقید بن چکے ہیں، جن میں سے ایک حالیہ دنوں 27 مارچ کے حوالے سے انکا موقف تھا، جس بابت انہوں نے 27 مارچ 1948 کو بلوچستان پر قبضے کے دن کے حیثیت سے تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا اور کہا تھا کہ ستائیش مارچ بلوچستان پر قبضے کا دن نہیں ہے بلکہ اس دن صرف قلات پر قبضہ ہوا تھا جبکہ باقی بلوچستان اپنے مرضی سے پاکستان میں شامل ہوا تھا حالانکہ بلوچ آزادی پسند حلقے گذشتہ ستر سالوں سے اس دن کو یوم قبضہ بلوچستان مناتے رہے ہیں۔
اسی حوالے دوسرے آزادی پسند لیڈران نے براہمدغ بگٹی کو ہدفِ تنقید بناکر ان پر الزام لگایا تھا کہ براہمدغ بگٹی اپنے آزادی کےموقف سے آہستہ آہستہ پیچھے ہٹ رہے ہیں، اب ایسے وقت میں براہمدغ بگٹی ایک بار پھر اپنے پرانے موقف سے ہٹ کر نئے مباحثوں کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتے ہیں۔