بلوچ معتدل نہیں – حیدر میر

304

بلوچ معتدل نہیں
حیدر میر

دی بلوچستان پوسٹ : کالم

مجھے ایک بات کبھی سمجھ نہیں آئی کہ ہم کیوں یہ تسلیم نہیں کرتے کہ بلوچوں کے اندر ہر قسم کی انتہا پسندانہ نظریات موجود ہیں، ہم میں کٹر قبائلی، کٹر قوم پرست سے لیکر کٹر فرقہ پرست و مذہب پرست وجود رکھتے ہیں۔ اگر ہم میں کچھ نہیں تو وہ چیز نہیں ہے جس کا سب سے زیادہ ہم برملا دعویٰ کرتے ہیں، یعنی لبرل، سیکولر و ترقی پسند۔ آج شیعہ/ہزارہ نسل کشی کے خلاف بلوچوں کے ہر طبقہ فکر سے لوگ اظہار یکجہتی کر رہے ہیں، اس امر کا اظہار حالیہ بھوک ہڑتالی کیمپ میں دیکھا گیا، اس سے پہلے ٹارگٹ کلنگ کے ہر بڑے واقعے پر بھی گاہے بہ گاہے سامنے آئی، مگر بلوچ اہلِ اختیار طبقہ اس بات کو کب تسلیم کریں گے کہ بلوچ اب آپکا سیکولر بلوچ نہیں رہا۔

میں بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں جن جن گھروں میں بیٹھا ہوں، وہاں وہاں ذکری و نمازی کا نفرت دیکھا ہے، بلوچستان کے مرکز خضدار بلکہ جھالاوان میں جہاں بھی گیا، وہاں دیوبندیوں کو بریلویوں کا تمسخر اڑاتے اور شیعہ کو بڑے اطمینان سے کافر قراردیتے ہوئے سنا اور دیکھا ہے۔ بلکہ خضدار تو ایک ہاتھ آگے ہے، جہاں لوگ باہر سے آتے ہیں، تو بڑے روش خیال ہوتے ہیں اور نکلتے وقت ضرور کسی نا کسی لحاظ سے کٹر بن جاتے ہیں، اسکی مثال خضدار یونیورسٹی کے ان لڑکوں کی ہے، جو جب آئے تھے تو اپنوں کمروں میں موسیقی کی دھن پر چاپ کا اہتمام کرتے تھے، مگر تبلیغی مرکز میں چار شب جمعہ گذارنے کے بعد انکی سوچ کیا بدلی کہ یہ لڑکے چند سال بعد بلوچستان کے پشتون علاقوں میں فورسز کے ایک آپریشن میں مارے گئے، یہ لڑکے کوئٹہ میں وکلاء پر حملوں میں نا صرف ملوث تھے بلکہ ماسٹر مائنڈ بھی تھے۔

میں ہرگرز یہ نہیں کہونگا کہ میرے لکھنے کا مقصد کسی کی دل آزاری کرنا نہیں، بلکہ میرے لکھنے کا مقصد بلکل یہی ہے کہ آپکی دل آزاری ہو، آپ اپنے ارد گرد دیکھیں کہ ہو کیا رہا ہے، آپ کیوں ” سیکیولر” کے غیر حقیقی بیانیے کے قالب میں پوری قوم کی نفسیات کو گمانی طور پر ڈھال کر، ایک حقیقی مسئلے سے ہی روگردان ہیں۔ میرا قوم جو تعلیم میں سب سے پیچھے ہے، ذریعہ معاش نہ ہونے کے برابر ہے، تو آخر انکو کس طرح کی تعلیم و تربیت مل رہی ہے۔

ہم آئے روز پرائیویٹ اسکولوں، اکیڈمیز اور یونیورسٹیوں میں ہورہے نا انصافیوں پر بولتے ہیں، تحقیق بھی کرتے ہیں، مگر ہم میں سے کتنوں کو پتہ ہے کہ محلے کے مسجد کا طالب علم یہاں سے نکلے گا تو کہاں جائیگا؟ یا شہر کے بڑے دینی ادارے کے اساتذہ کون ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں؟ انکی فنڈنگ کہاں سے ہوتی ہے اور انکے فارغ التحصیل بچے کہاں جاتے ہیں؟

ضرورت اس امر کی ہے کہ اس معاشرے کو سدھارنے میں کوئی کردار ادا کریں۔ ہم نوجوانوں تسلیم کریں اور اپنا کردار سمجھیں، چاہے وہ جس طبقہ سے ہو، تعلیم یافتہ ہو یا پھر ان پڑھ، جب بھی کسی سے ملیں تو اس کے سامنے امن و محبت کا پیغام رکھ دیں تا کہ کل کلاں کوئی ایسے نوجوان کو ورغلانے کی کوشش کرے تو آپکی بات اسکے ذہن میں آئے۔ ہم میں سے جو شخص چار لفظ لکھنا اور بولنا سیکھ گیا، اسے خدا کا واسطہ خود کو پارسا سمجھنا چھوڑ دے، آپ جتنا بھی پڑھ لکھ لیں، مگر یہ خیال و تصویر ذہن سے نکال لیں کہ جو میرے جتنا نہیں جانتا، اس سے میں بات کرتا ہی نہیں، اسکے منہ لگنا ہی بیکار ہے، ارے بھائی! یہ آپ پر فرض بن جاتا ہے کہ ایسے لوگوں کے منہ لگیں، جن کے کوئی منہ نہیں لگتا، انھیں احساس دلائیں کہ آپ نے تعلیم حآصل کی ہے تو تعلیم ایک اچھی چیز ہے، جس کی وجہ سے آپ ہر طبقے کے لوگوں کو عزت کی نظر سے دیکھتے ہیں، انکے ساتھ بیٹھ کر چند خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔

بلوچ معاشرہ اپنے اساس میں معتدلانہ سوچ رکھتا ہوگا لیکن اب ایسا مزید نہیں لگتا، کوئی پیدائشی انتہاء پسند یا لبرل پیدا نہیں ہوتا بلکہ سماجی ساخت و سماجی ادارے سوچ کے ساخت کو سانچوں میں ڈھالتے ہیں، بلوچ معاشرہ طویل عرصے سے مکالموں کے جس گھٹن اور معتدل قوتوں کی ناکافی کوششوں سے انتہاء پسندی کی جس ڈگر پر رواں ہے، اب اسکے نتائج ہم اپنے اردگرد اپنی نئی انتہاء پسند نسل کی صورت دیکھ سکتے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہی لبرل قوتیں اب بیانی و خیالی حد سے نکل کر عملی طور پر بلوچ سیکولر سماج اساس کو تحفظ دینے کیلئے آگے بڑھیں اور اسے پنپنے دیں، خاص طور پر تعلیم یافتہ طبقے کو اپنے خول سے نکل کر عملی اقدامات کرنی ہونگی اور مکالموں کا آغاز کرنا پڑیگا، ورنہ یہ بعید از قیاس نہیں کہ بلوچ بھی عالمی سطح پر مذہبی کٹر پن شناخت حاصل کرلے۔