بلوچ سماج اور تحریکی تقاضے – برزکوہی بلوچ

316

بلوچ سماج اور تحریکی تقاضے

برزکوہی بلوچ

سماجی خدوخال یعنی سماج سے تحریک پرورش پاتے ہیں، بلوچ سماج اور بلوچ قومی تحریک پر اسی تناظر میں اگر غور کیا جائے تو بہتر تجزیہ ممکن ہوسکے گا۔ بلوچ سماجی خدوخال کیسے اور کس طرح تشکیل شدہ ہیں، شاید اس بابت باریک بینی سے صحیح تجزیہ، کم علمی کے سبب نہ ہوسکے، بہرحال کسی حد تک یہ ضرور جانکاری ہے کہ قبائلی، نیم قبائلی، سیاسی، نیم سیاسی، وہ بھی فرسودہ قبائلی و نیم قبائلی اور روایتی و پارلیمانی طرز سیاست، سیاسی و نیم سیاسی سماج، بلاواسطہ یا بالواسطہ اسی سے ہی یعنی بلوچ سماج کے کوکھ سے ہی بلوچ قومی تحریک کا مزاحمتی اور سیاسی وجود اور تخلیق ابھر کر سامنے آیا ہے، جو ہنوز جاری و ساری ہے۔

عمل، محنت، مشقت، جذبہ، قربانی اور بھاگ دوڑ کی حد تک، کسی حد تک قابل اطمینان ضرور ہے لیکن کیا ایک مضبوط موثر اور سائینٹفک تحریک کیلئے جو بلوچ سماجی سوچ اور رویئے ہیں، وہ کسی قومی آزادی کی تحریک کے تقاضوں سے عین مطابقت رکھتے ہیں؟ یا پھر تحریک کے خود اپنے الگ تشکیل شدہ مستند اصول رویئے اور تقاضے ہوتے ہیں؟ وہ کیا ہیں؟ صحیح معنوں میں کس کو علم ہے؟ اگر علم ہے، ان پر عمل کس حد تک؟ یا پھر کیا بلوچ سماجی رویوں اور سوچ کو لیکر قومی تحریک رواں دواں ہے؟ کیا بلوچ سماجی رویئے تحریک کے تقاضات کو پورے کررہے ہیں؟ اگر کررہے ہیں، تو کیسے کررہے ہیں؟ پھر دنیا میں جتنے بھی تحریک چلے، ان کے تقاضے، رویئے اور سوچ کیوں بلوچ سماجی سوچ سے بہت مختلف رہے ہیں۔ پھر کیا وہ غلط تھے؟ اگر وہ غلط نہیں تھے، پھر انہی اصولوں پر کاربند نہ رہنا اور تقاضوں کو پورا نہ کرنا، اس بات کا واضح ثبوت نہیں کہ تحریکی تقاضات سے زیادہ ہمیں اپنے سماجی رویے اور مزاج زیادہ عزیز ہیں۔ ہم ان کو چھوڑنے اور تبدیل کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں؟ چاہے وہ رویئے اور طرز سوچ تحریک کے مفاد میں ہوں یا نہ ہوں لیکن ہمارے اپنے طبیعت کے مطابق ہونے چاہیئے کیونکہ ہماری شروعاتی پرورش ایسے ماحول اور ایسے سماج میں ہوا ہے۔ اس لیئے ان کو چھوڑنا، گوارہ نہیں کرتے ہیں، اگر گوارہ نہیں کرتے ہیں، پھر تحریک کی خاطر قربانی اور تبدیلی کا دعویٰ کس بات کا؟

میری رائے کے مطابق، ہم بحثیت بلوچ قوم جو سماجی خدوخال، قبائلی یا نیم قبائلی، سیاسی یا نیم سیاسی آپ جو بھی نام دیں، وہ سوچ طریقہ کار طرز سیاست لین دین تعلقات اعتماد بد اعتمادی وغیرہ وغیرہ جو بھی، وہ کم از کم کسی بھی منظم تحریکی تقاضات کے مطابقت نہیں ہوتے ہیں، پھر اس وقت تک ہم جتنا بھی تنظیم، پارٹی، گروپس، کمانڈر اور لیڈر تشکیل دیں اور بناتے رہیں، جنگ جاری رہیگا، دشمن کیلے درد سر ہونگے، عوام تحریک میں شامل بھی ہوگی، جان و مال کو قربان کرتے رہینگے لیکن ایک مضبوط منظم موثر سائینٹفک عوامی تحریک اور دنیا کی توجہ حاصل کرنے والی تحریک کی کبھی شکل اختیار نہیں کریگی۔

سب سے پہلے بلوچ فرسودہ قبائلی، نیم قبائلی، روایتی، سیاسی، نیم سیاسی اور سماجی سوچ کو سمجھنا اور عملاً اس کو تبدیل کرنا، پھر تحریکی سوچ اور تقاضات کو سمجھنا اور عملاً اختیار کرنا، تب جاکر بلوچ قومی تحریک کا مستقبل روشن ہوگا۔