بلوچ آزادی کی جنگ میں لیڈر شپ کی ضرورت – جلال بلوچ

434

بلوچ آزادی کی جنگ میں لیڈر شپ کی ضرورت

تحریر: جلال بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ کالم

جنگ در جنگ پوری دنیا میں ایک خون ریزی چل رہی ہے، دشمنی اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ دنیا کی نصف آبادی سے زیادہ کے پاس بندوق پایا جاتا ہے۔ کیونکہ اسلحہ سازی ایک منافع بخش صنعت کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ ان جنگوں کی ایک بڑی وجہ، عالمی قوتوں کے توازن میں بگاڑ ہے، دنیا میں قوتوں کا یہ توازن ملٹی پولر سے ہوتا ہوا دوسری جنگ عظیم تک پہنچا، اس کے بعد بائی پولر اور جبکہ اس وقت بائی پولر طاقتوں میں امریکہ اور‏ناکہ بندی، زبان بندی، سفر بندی، ظلم، جبر، گرفتاریاں، گمشدگیاں، دھونس، دھمکی، میڈیا پر پابندی تمام تر مظالم، وحشیت اور بربریت کے باوجود روس کی طاقتیں تھی۔ پھر یو ایس ایس آر کے ٹوٹنے کے بعد دنیا کی ساری طاقت ایک ہاتھ میں چلا گیا تھا۔ جسے ہم آج سپر پاور امریکہ کے نام سے جانتے ہیں۔ اس وقت کے بائی پولر دنیا میں، ہر کوئی اسی دوڑ میں تھا کہ کون کیسے خود کو یونی پولر بنائے گا۔ مگر تمام ممالک کے کمزوریوں پرغور کرکے اس وقت کے بائی پولر پاور فل ممالک میں سے ایک امریکہ نے ہتھیاروں کا کاروبار تیز کرکے بائی پولر طاقتوں کو پیچے چھوڑ کر پورے دنیا پر ایک حکومت قائم کرلیا، جو باقاعدہ یونی پولر کہاجاتا ہے، جو اب سوپر پاور امریکہ کی نام سے جانا جاتا ہے۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کے دنیا کے کونے کونے میں جنگ چھڑا ہوا ہے لیکن ان میں سے بہت کم اہم مقاصد کی خاطر لڑے جارہے ہیں۔ باقی تمام کے تمام میں لوگ فضول جنگوں میں شامل ہیں، جو بنا مقصد کے لڑے جارہے ہیں۔ ان میں مذہب کے نام پر جنگ، فرقہ واریت کی جنگ، ملکوں کے درمیان غیر ضروری جنگ، قبائیلی جنگ، رنگ و نسلوں کے نام پر جنگ، آزادی کے نام پر جنگ، حقوق کے نام پر جنگ، سوچ و نظریے کے خلاف جنگ، شامل ہے۔

مگر ہمیں دیکھنا ہے ان تمام جنگوں میں سے کونسا حقیقی جنگ کہلاتا ہے، جو آپ کو بندوق کے استعمال کو صحیح اور جائز ثابت کرتا ہے۔ یقیناً دنیا و عالم میں ہر اس جنگ کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، جو اپنی بقاء کی جنگ ہو، جو اپنے غلامی کے خلاف جنگ ہو کیونکہ دنیامیں اکثر و بیشتر ملکوں کے اپنے دفاع کیلئے فوج ہوتے ہیں اور دنیا کے جنگی قوانین کے تحت جنگ کرکے اپنی دفاع کرتے ہیں۔ مگر دیکھا جائے تو اس دلدل کے بیچ بہت پرتضاد جنگ جو ذمینی ساحل و وسائل پر ہورہا ہے، اس جنگ کے وجہ سے بہت سے اقوام غلام ہوکر محصور ہوگئے ہیں۔ جن کو خدشہ ہے کہ وہ اپنی بقاء و تشخص کھودینگے۔

اس لیئے وہ سامراجیت کے خلاف جنگ کا انتخاب کرکے، اپنی قوم کو غلامی سے نجات دلانے کیلئے سرگرم عمل ہیں ۔ جن میں سے ایشیاء میں واقع بہت اہمیت کے حامل بلوچستان، پچھلے 77 سالوں سے غلامی کے اس انتہائی گہرے دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔ مگر اسی غلامی کو شدت سے محسوس کرکے ہزاروں بلوچ فرزند دشمن ریاست پاکستان کے خلاف سر پر کفن باندھے ہوئے پچھلے 70 سالوں سے جنگ کا آغاز کرچکے ہیں۔ لیڈری کیلئے کچھ خاص کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسے کہ (ویبسر ) اور (میرین کورز) بیان کر چکے ہیں۔

“ویبسر کے مطابق لیڈر شپ سے مراد رہنمائی کرنے کی اہلیت ہے۔ میرین کورز، کی تعریف کے مطابق لیڈر شپ ذہانت، انسانی تفہیم اور اخلاقی کردار کی ان صلاحیتوں کا مرکب ہے، جو ایک فرد واحد کے ایک گروہ کو کامیابی سے متاثر اور کنٹرول کرنے کے قابل بناتی ہے”۔

لیڈر شپ کبھی بھی آسان نہیں ہوتا ۔ کوئی لیڈر اپنے کام میں کتنا بھی ماہر کیوں نہ نظر آئے، اس کی راہ ہمیشہ چیلنجز اور حیرتوں سے پر ہوتی ہے۔ تاہم لیڈر چیلنجز مشکلات کا مقابلہ کبھی بھی تنہا نہیں کرتا۔ قیادت کی تعریف ہی یہی ہے کہ قائد کے ساتھ ایک گروہ یا تنظیم ضرور ہوتی ہے، جو ہر چیلنج کا مقابلہ کرنے اور ہر ہدف کو حاصل کرنے کے لیئے کررہا ہوتا ہے۔ لیڈر کا نام بھی ہر مسئلے کو تن تنہا حل کرنا نہیں ہوتا، بلکہ اپنی پیروی کرنے والوں کو ان مسائل کے حل کرنے کے لیئے تحریک فراہم کرنا ہوتا ہے۔

اچھے لیڈروں کو علم ہوتا ہے کہ ہر سوال کا جواب ان کے پاس نہیں ہے اور وہ اپنے کام کے حوالے سے مسلسل سیکھتے رہتے ہیں اور اپنی قائدانہ صلاحیتوں کی آبیاری کرتے رہتے ہیں۔ یاد رکھئے کہ ماں کہ پیٹ میں لیڈر بن کر کوئی نہیں آتا، سب اپنے ہاتھوں سے قائدانہ صلاحیتوں کو تعمیر کرتے ہیں۔

مگر بلوچ جہد کے نظریاتی پیروکار آزادی کے انقلاب کیلئے شمع روشن کرچکے ہیں۔ جو ہر طرح کے مسائل کا سامنا کرکے اصل مقصد یعنی حصول آزادی سے ایک انچ تک پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

مگر سب سے اہم بات یہ ہے بلوچ تحریک کے حوالے سے اگر بات کیا جائے تو اس میں بھی ملٹی پولرازم پایا جاتا ہے کیوں کہ ہر کوئی اپنے باغ کا مالک بنا پھرتا ہے، کوئی بھی یکجہتی کیلئے کوئی خاص پیش رفت کرنے سے قاصر ہوچکا ہے۔ کیونکہ کوئی حقیقی لیڈر شپ کے تقاضے پورا نہیں کرپا رہا ہے۔

مگر انقلاب آنے میں دیر نہیں لگتا، جیسے دنیا کی تمام تر طاقتیں ٹوٹ کر ملٹی پولر سے بائی پولر بننے اور پھر یونی پولر میں تبدیل ہوئے، اسی طرح نچلے طبقات کو یہ جدوجہد کرنا ہوگا کہ بلوچ کی ساری طاقت یونی پولر میں تبدیل ہو اور وہ ایک طاقت بلوچ قوم کا حقیقی وارث ہو، نا کہ کوئی نواب، سردار، یا پارٹی لیڈر ہو بلکہ وہ ایک منظم سوچ نظریہ سے لیس حقیقی انقلاب کے پیروکار بن کر بلوچ قوم کو حقیقت پسندی سے ہر چیز سے آگاہ کریں اور عظیم مقصد آزادی سے ہمکنار کرنے میں بہترین کردار ادا کرنے میں رہنمائی کریں۔