سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے واضح کیا ہے کہ اگر ایرن جوہری ہتھیار بناتا ہے تو پھر ان کا ملک بھی اپنے جوہری ہتھیار بنائے گا۔
انھوں نے یہ بات بدھ کو “سی این این” سے گفتگو کرتے ہوئے کہی ہے۔ امریکی ٹی وی چینلز کے نمائندے نے ان سے یہ سوال پوچھا تھا کہ اگر ایران امریکا کے 2015ء کے جوہری سمجھوتے سے نکلنے کے بعد اپنا جوہری ہتھیاروں کا پروگرام دوبارہ شروع کر دیتا ہے تو کیا الریاض بھی از خود ایک جوہری بم بنائے گا؟ اس کے جواب میں عادل الجبیر نے کہا کہ ’’اگر ایران جوہری صلاحیت حاصل کرتا ہے تو پھر ہم بھی اس صلاحیت کے حصول کے لیے جو بن پڑا، وہ کریں گے‘‘۔
سعودی عرب ماضی میں بھی یہ کہہ چکا ہے کہ ایران جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے لیے جو کچھ کرے گا، وہ اس کا مقابلہ کرے گا۔اب وزیر خارجہ عادل الجبیرنے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جوہری سمجھوتے سے دستبرداری کے اعلان کے ایک روز بعد پھر اس مؤقف کا اعادہ کردیا ہے۔
ایران نے یمن میں حوثی شیعہ باغیوں کی حمایت بدستور جاری رکھی ہوئی ہے اور وہ سرحد پار سعودی شہروں پر بیلسٹک میزائلوں اور راکٹوں سے حملے کر رہے ہیں ۔سعودی عرب ایران پر یہ الزام عاید کرتا چلا آ رہا ہے کہ وہ یمن میں حوثی باغیوں کو بیلسٹک میزائل مہیا کر رہا ہے۔ ایران کی ان اشتعال انگیز کارروائیوں اور خطے میں مداخلت کی وجہ سے پہلے ہی دونوں ممالک کے درمیان سخت کشیدگی پائی جارہی ہے۔
عادل الجبیر نے اس جانب اشارہ کرتے ہوئے سی این این کو بتایا کہ ’’یہ میزائل ایرانی ساختہ ہیں اور حوثیوں کو مہیا کیے جا رہے ہیں ۔اس طرح کا کردار بالکل ناقابل قبول ہے۔ ان بیلسٹک میزائلوں سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔ ایرانیوں کو اس معاملے میں قابل مواخذہ قرار دیا جانا چاہیے‘‘۔
سعودی وزیر خارجہ نے خبردار کیا ہے کہ ’’ہم مناسب طریقے سے اور مناسب وقت پر اس اشتعال انگیزی کا جواب دیں گے۔ فی الوقت ہم ہر قیمت پر ایران کے ساتھ براہ راست فوجی تصادم سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ایران کے اس طرح کے کردار کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ ایران کا یہ عمل تو سیدھا سیدھا اعلان جنگ ہے اور اس کو یہی سمجھا جانا چاہیے‘‘۔