افغانستان کے دوتہائی صوبے خشک سالی سے متاثر

230

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ افغانستان کے 34 صوبوں میں سے دو تہائی صوبے خشک سالی کا شکار ہیں اور اس بات کا خدشہ ہے کہ 20 لاکھ سے زائد افراد کو خوراک کی کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے انسانی امور کے رابطہ دفتر (یو این او سی ایچ اے) کی ایک ہفتہ وار رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں پانی کے ذخیرے اور چشمے خشک ہو گئے ہیں، بارشوں کی کمی اور برف نا پگھلنے کی وجہ سے دریاؤں میں پانی کی سطح یا تو کم ہو گئی یا وہ مکمل طور پر خشک ہوگئے ہیں۔

پانی کی کمی کی وجہ سے کاشت کاروں نے اپنے فصلوں کی بوائی کو موخر کر دیا ہے اور اس بات کا امکان ہے کہ نقصانات کو کم کرنے کے لیے وہ کم رقبے پر فصلیں کاشت کریں گے۔ اقوام متحدہ کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ زیادہ تر کسانوں کے پاس اس صورت حال سے بچنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے اور وہ صرف بیجوں کو خشک ہوتا دیکھ رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کی ایجنسی کا کہنا ہے کہ خشک سالی کی وجہ سے پہلے ہی2017ء اور 2018ء کے سیزن میں خریف کی فصل پر منفی اثر پڑا ہے جس کا ازالہ نہیں کیا جا سکتا ہے اور اندیشہ ہے کہ اس صورت حال کی وجہ سے 2018ء میں موسم بہار اور موسم گرما کی فصلوں پر منفی اثر پڑ سکتا ہے جبکہ گزشتہ سیزن کی فصل مکمل طور پر ختم ہو گئی ہے۔

اقوام متحدہ کے انسانی امور کے رابطہ دفتر نے مئی کے اوائل سے خشک سالی اور خاندانوں کے لیے خوراک کے ذخیرے کے ختم ہونے کی وجہ سے شہری علاقوں میں نقل مکانی کرنے والے افرادکی تعداد 21 ہزار بتائی ہے۔

ایجنسی کے طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق “شمال مشرق علاقے میں تقریباً 15 لاکھ بکریوں اور بھیڑوں کے لیے خوراک کی دستیابی مشکل ہو گئی ہے اور اس صوبے کے ایک ہزار دیہات میں سے 6 سو دیہاتوں کو پانی کی کمی کا سامنا ہے۔ “

ایجنسی کا مزید کہنا ہے کہ خشک سالی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے تقریباً 14 لاکھ افراد کی ضروریات پوری کرنے کے لیے 11 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی فوری امداد درکار ہے۔

ایجنسی کا کہنا ہے کہ افغانستان کے کئی علاقوں میں جاری شورش کی وجہ سے خشک سالی کے اثرات میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس کی وجہ سے لوگوں کی منڈیوں تک رسائی مشکل ہو گئی ہے۔

دوسری طرف طالبان کا افغانستان کے نصف رقبے پر کنٹرول ہے یا وہاں لڑائی جاری ہے جس کی وجہ سے ملک بھر میں ان کے حملوں میں اضافہ ہو گیا ہے اور کئی ضلعے ان کے قبضے میں چلے گئے ہیں۔

انسانی بہبود کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ان علاقوں میں متاثر ہ افراد تک پہنچنا سیکورٹی کے تحفظات کی وجہ سے مشکل ہوگیا ہے۔

افغانستان کی تعمیر نو کے امریکی حکومت کے انسپکٹر جنرل یعنی ‘ایس آئی جی اے آر’ نے اپنی ایک تازہ سہ ماہی رپورٹ میں اس بات کا ذکر کیا تھا کہ ایک کروڑ 10 لاکھ سے زائد افغان ان علاقوں میں مقیم ہیں جو طالبان کے کنٹرول میں ہیں یا وہاں لڑائی ہو رہی ہے۔