القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی حوالگی کیلئے امریکہ اور پاکستان میں خفیہ ڈیل ہوئی تھی جبکہ اسامہ کی ایبٹ آباد میں موجودگی کی اطلاع امریکہ کو آئی ایس آئی کے ایک سابق افسر نے دی تھی، یہ دعویٰ خفیہ ایجنسیوں اور ان کے کارناموں کے بارے میں شائع ہونیوالی کتاب’دا سپائی کرونیکل: را، آئی ایس آئی اینڈ دی الیوژن آف پیس‘ کے مصنفین آئی ایس آئی کے سابق سربراہ محمد اسد درانی اور را کے سابق سربراہ اے ایس دولت نے ایک بھارتی صحافی آدتیہ سنہا کو خصوصی انٹرویوز دیتے ہوئے کیا۔
اسد درانی نے اس بات کا اعتراف کیا کہ نائن الیون حملوں کے ماسٹر مائنڈ اسامہ بن لادن کو امریکہ حوالے کرنے کی باقاعدہ ڈیل ہوئی تھی ۔اسامہ بن لادن پر حملہ کرنے سے پہلے جنرل اشفاق پرویز کیانی کے ساتھ امریکیوں کی ملاقات ایک بحری جہاز پر ہوئی جس میں تمام معاملات طے پا گئے تھے ۔ اس ملاقات کے علاوہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی امریکی جنرل ڈیوڈ پیٹریاس سے بھی خفیہ ملاقات ہوئی، اسامہ کے بارے میں دونوں ممالک ایک پیج پر تھے۔
ایک سوال کے جواب میں اسد درانی کا مزید کہنا تھا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سب سے پہلے پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے ایک ریٹائرڈ افسر نے امریکیوں کو بتایا کہ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں مقیم ہے ، لیکن میں اس افسر کا نام نہیں بتاؤں گا اور نہ ہی میں اس کو اتنی پبلسٹی دینا چاہتا ہوں ۔کسی کو نہیں پتہ کہ 50 ملین ڈالرز میں سے اسکو کتنے ملے، لیکن اب وہ شخص پاکستان سے غائب ہے ۔ اسامہ بن لادن کو مارا نہیں گیا تھا بلکہ زندہ امریکیوں کے حوالے کیا گیا تھا۔
2003ء میں را کی ایک اطلاع کی وجہ سے جنرل پرویز مشرف قاتلانہ حملہ سے بچ گے تھے ۔
اسد درانی نے کہا کہ آئی ایس آئی نے ہی مقبوضہ کشمیر میں حریت کا بیج بویا تھا، میں سمجھتا ہوں کہ تحریک کو ایک سیاسی سمت دینے کیلئے حریت کی تشکیل ایک اچھا آئیڈیا تھا لیکن مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ حریت کو بعد میں کھلی چھوٹ دیدی گئی تھی۔