پاکستان کی خفيہ ايجنسی انٹر سروسز انٹيليجنس نے سابق سربراہ ريٹائرڈ ليفٹيننٹ جنرل اسد درانی کے ملک چھوڑنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ پابندی پاکستانی فوج کی جانب سے پير اٹھائيس مئی کے روز عائد کی گئی ہے۔
اسد درانی 1990ء سے 1992ء کے دوران آئی ايس آئی کے سربراہ رہے تھے۔ پچھلے ہفتے ان کی کتاب ’The Spy Chronicles: RAW, ISI and the Illusion of Peace‘ جاری ہوئی، جو انہوں نے روايتی حريف ملک بھارت کی خفيہ ايجنسی کے ايک سابق اہلکار اے ايس دولت کے ساتھ مل کر لکھی ہے۔ اس کتاب ميں متنازعہ کشمير اور افغانستان ميں پاکستان کے کردار کے حوالے سے کئی انکشافات کيے گئے ہيں۔ پاکستان ميں فوج پر کسی بھی قسم کی تنقيد کافی سنجيدہ معاملہ ہے۔ علاقائی سطح پر جاری ’پراکسی جنگوں‘ ميں پاکستانی فوج کے کردار پر سوال اٹھانا يا اس پر تنقيد تقريباً ناقابل برداشت سی بات ہے۔
ريٹائرڈ ليفٹيننٹ جنرل اسد درانی نے اپنی کتاب ميں لکھا ہے کہ اس بات کے امکانات ہيں کہ پاکستانی حکام القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کی پاکستان ميں موجودگی کے بارے ميں آگاہ تھے اور يہ امکان بھی ہے کہ انہی نے يہ بات امريکی انٹيليجنس کو بتائی، جس کے نتيجے ميں سن 2011 ميں ايبٹ آباد ميں ايک امريکی آپريشن ميں بن لادن کو ہلاک کيا گيا۔
يہ تنازعہ ايک ايسے وقت پر منظر عام پر آيا ہے کہ جب کچھ روز قبل سابق وزير اعظم نواز شريف نے يہ کہہ کر ملک ميں ايک تہلکہ مچا ديا تھا کہ بھارتی شہر ممبئی ميں سن 2008 ميں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں ميں امکاناً پاکستانی جنگجو ملوث تھے۔ اس بيان کی نيشنل سکيورٹی کونسل نے باقاعد مذمت کی۔ شريف نے اب يہ کہا ہے کہ درانی کی کتاب ميں بيان کردہ معاملات پر بھی قومی سلامتی کی کونسل ميں بات کی جائے۔