ہزارہ قبیلہ گزشتہ دو دہائیوں سے ظلم وجبر کا شکار ہے۔ جلیلہ حیدر
کوئٹہ میں ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کا احتجاجی دھرنا چوتھے روز بھی جاری رہا۔
یہ دھرنا چار روز قبل ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایک ٹیکسی ڈرائیور کی ہلاکت کے خلاف شروع کیا گیا تھا۔
اس واقعے میں ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والا ایک اورشخص زخمی بھی ہوا تھا۔ یہ واقعہ شہر کے مصروف ترین علاقے قندہاری بازار میں پیش آیا تھا۔
اس واقعہ سمیت ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے افراد پر حال ہی میں ہونے والے حملوں کے خلاف قبیلے کے افراد نے علمدار روڈ پر دھرنا دیا ہے جس میں خواتین اور بچے بھی شریک ہیں۔
دھرنے میں شریک حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والی ایک کارکن جلیلہ حیدر نے میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس دھرنے کا انتظام ٹیکسی ڈرائیوروں نے کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہزارہ قبیلہ گزشتہ دو دہائیوں سے ظلم وجبر کا شکار ہے۔ ’لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ عدم تحفظ کا شکار ہیں اور ان کے قتل عام کا سلسلہ جاری ہے۔‘
جلیلہ حیدر نے میڈیا کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہ چار روز سے جاری اس دھرنے کی میڈیا نے کوئی کوریج نہیں کی۔
ہزارہ قبیلے کے لوگ شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔
وہ کوئٹہ شہر کے مشرق میں مری آباد جبکہ مغرب میں بروری روڈ سے متصل ہزارہ ٹاؤن میں رہائش پذیر ہیں۔
دیگر مقامات کے علاوہ ان کو دونوں علاقوں کے درمیان آمدورفت کے دوران بھی نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
گذشتہ ماہ حکومتی سطح پر قائم حقوق انسانی کی تنظیم نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس نے ہزارہ قبیلے کی ٹارگٹ کلنگ سے متعلق ایک رپورٹ جاری کی تھی۔
اس رپورٹ کے مطابق گذشتہ 16سال کے دوران ہزارہ قبیلے کے افراد پر ہونے والے حملوں میں 525 افراد ہلاک اور700 سے زائد زخمی ہوئے۔
تاہم ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والی دیگر تنظیموں کا یہ کہنا ہے ہلاک اور زخمی ہونے والے افراد کی تعداد اس سے زیادہ ہے۔