چینی حکام کے مطابق جن اشیا کی درآمد پر عائد محصولات میں اضافہ کیا گیا ہے ان میں شراب، بعض پھل، خنزیر کا گوشت اور میوہ جات شامل ہیں۔
چین نے یہ اضافہ بظاہر امریکہ کی جانب سے چین سے المونیم اور اسٹیل کی درآمد پر عائد محصولات میں گزشتہ ماہ کیے جانے والے اضافے کے ردِ عمل میں کیا ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کی جانب سے اسٹیل اور المونیم پر عائد درآمدی ڈیوٹی میں اضافے پر چین سمیت دنیا کے کئی ملکوں نے اعتراض کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ اگر امریکہ نے اپنا یہ فیصلہ واپس نہ لیا تو وہ بھی جوابی اقدام کے طور پر امریکی برآمدات پر اضافی ٹیکس عائد کریں گے۔
چین امریکہ کو المونیم اور اسٹیل برآمد کرنے والا ایک بڑا ملک ہے اور ٹرمپ انتظامیہ کے اس فیصلے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی محاذ آرائی جاری ہے۔
دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے درمیان جاری اس کشیدگی کا اثر بین الاقوامی منڈیوں اور بازارِ حصص پر بھی پڑا ہے۔
چین کی وزارتِ خزانہ نے اتوار کی شب ایک بیان میں کہا ہے کہ 128 امریکی مصنوعات پر لگائے جانے والے نئے محصولات کا اطلاق فوری طور پر ہوگا۔
جن اشیا پر اضافی ٹیکس عائد کیا گیا ہے وہ چین کی وزارتِ خزانہ کی جانب سے 23 مارچ کو جاری کی جانے والی امریکی برآمدات کی فہرست میں شامل تھے جن پر چین نے ڈیوٹی لگانے کا عندیہ دیا تھا۔
چینی حکام کا کہنا تھا کہ اس فہرست میں شامل اشیا پر اضافی ڈیوٹی سے چین کو تین ارب ڈالر تک اضافہ آمدنی ہوگی۔
اتوار کو چینی وزارتِ خارجہ کی جانب سے محصولات میں اضافے کے اعلان کے فوراً بعد چین کے نیم سرکاری اخبار ‘گلوبل ٹائمز’ نے ایک اداریہ شائع کیا ہے۔
اداریے میں کہا گیا ہے کہ اگر امریکہ کا یہ خیال تھا کہ چین اس کی جانب سے محصولات میں اضافے کا کوئی جواب نہیں دے گا یا صرف نمائشی اقدامات کرے گا تو امریکہ کو اب اس خام خیالی سے نکل آنا چاہیے۔
اداریے کے مطابق گو کہ امریکہ اور چین دونوں ہی سرِ عام یہ اعتراف نہیں کر رہے کہ ان کے درمیان تجارتی جنگ جاری ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس جنگ کی چنگاریاں اڑنا شروع ہوگئی ہیں۔
چین کی وزارتِ خزانہ نے کہا ہے کہ چین نے امریکی برآمدات پر محصولات میں کمی تنظیم برائے بین الاقوامی تجارت (ڈبلیو ٹی او) کے ضوابط کے تحت کر رکھی تھی جسے چین اب اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے واپس لے رہا ہے۔
بیان کے مطابق امریکہ نے اسٹیل اور المونیم کی درآمدات پر اضافی ٹیکس عائد کرکے چین کے مفادات کا زک پہنچائی ہے جس کے جواب میں چین بھی ‘ڈبلیو ٹی او’ کے قواعد کے تحت جوابی اقدامات کرنے میں آزاد ہے۔