میں، ناز گْل مرگئی
تحریر: رژن بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ : کالم
رات کے اس پہر جب چاندنی اپنی جوبن پر تھی، تو میرے اَدھ مرے گاؤں میں ماتم کا سماں تھا۔ ماتم اِس لیئے نہ تھا کہ کوئی مر گیا تھا بلکہ اِس لیئے کہ یہ معلوم نہ تھا کے کون زندہ ہے اور نہ جانے کس کی لاش نا معلوم کے نام سے دفنادی گئی ہے۔
میرے گھر میں جو لالٹین لٹک رہی تھی، اس کی روشنی بھی اب مدھم ہوتی جا رہی تھی، شاید تیل ختم ہو رہا تھا۔ میرا گھر جہاں بس میں اور میری ساس رہتے تھے، جو اپنے نوجوان بیٹے کے اغوا کے غم میں نیم مردہ تھی اور میں، مجھے تو شاید یہ بھی معلوم نہ تھا کہ میں 4 سال سے بیوہ ہوں یا اب بھی میرے صاحبِ خانہ کے آنے کی کوئی امید باقی ہے۔
حالت جنگ سے پہلے جب بھی مشکے میں باہر کے لوگ آتے تھے، تو ہمیں خوف نہ تھا کیونکہ ہمارے احاطے میں کوئی جھانکتا تک نہ تھا لیکن اب گاؤں بیگانہ لگتا ہے اور اب ہر کوئی اپنے احاطے پر قفل باندھے رکھتا ہے۔ قفل باندھنے کا تصور بس شہر میں ہوتا تھا کیوں کہ وہاں لکڑی کے دروازے صحن میں لگے ہوئے ہیں، میں پہاڑوں کے دامن میں رہتی تھی، جہاں پکّے گھر اور دروازے تو کیا بجلی کا تصور بھی نہ تھا۔ دروازے کو عام زبان میں لوگ تحفظ یا پردے کا نام دیتے ہیں لیکن ہمارے یہاں پردہ اور تحفظ کس سے؟
سامنے والا صحن میرے ماما کا ہے، تو برابر والی جھونپڑی میرے تایا کا۔ پہاڑوں کے دامن میں کھلے آسمان تلے بغیر کسی ڈر و خوف کے پر سکون زندگی بسر کررہے تھے اور ہماری عزت و آبرو بھی محفوظ تھی، لیکن وہ کہتے ہیں نا جنگ میں کسی بھی لمحے سب کچھ بدل جاتاہے۔
ایک رات اجنبی قدموں کی آہٹ نے میری آنکھ کھول دی، میں اب بھی بستر پہ ہی تھی کہ میں نے کچھ لوگوں کے سائے دیکھے
“کون ہو سکتے ہیں؟” میں نے خود ہی سے بڑبڑا کر پوچھ لیا۔
آہستہ آہستہ وہ سائے نزدیک آرہے تھے اور میری آنکھوں میں وحشت سے آنسوں آرہے تھے اور جسم میں کپکپی بھی طاری ہو رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اب سانس رْک جائے گی اور روح پرواز کر جائے گی اور میرا جسم، میرا جسم بالکل اس مرے ہوئے کتے کی مانند پڑا ہوا ہوگا، جسے بھیڑیا بھی منہ نہ لگائے گا اور میری کھلی ہوئی آنکھیں جن میں مشکے کے خوبصورت وادیاں اور سبزہ بسا ہوا ہے، وہ آنکھیں عقاب نوچ کھائیں گے۔
“تم ایسی ساکت کیوں بیٹھی ہو، جیسے تمہیں کوئی سانپ سونگھ گیا ہو؟” ؛ میری ساس جو بستر سے اٹھ نہیں سکتی تھی، لیٹے لیٹے اس نے پوچھا۔
“وہ اب کیا لینے آئیں ہیں؟” میں نے دریافت کی۔
یہ خیال مجھے ایک لمحے میں ہزار موت مار رہا تھا کہ میں بھی عقوبت خانے کی نظر ہو سکتی ہوں، کیوںکہ ہمارے ہی گاؤں سے پہلے بھی کچھ عورتوں کو اٹھا کر لےگئے ہیں اور اب تک ان کا کوئی اطلاع نہیں اور یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ کیمپوں سے ان کے چیخنے کی آوازیں دور علاقے تک سْنائی دیتیں ہیں۔ نہ جانے اِن علاقے والوں کے کانوں میں سیسہ انڈیلاجاچکاہے یا اِن کی روحیں مر چکی ہیں اور اِن کے مردہ جسم زندہ ہونے کا دکھاوا کر رہے ہیں۔
وہ لوگ جن کے سائے تک مجھے وحشت زدہ کر رہے تھے، اندر گھس آئے، بڑے بڑے قدآور چھ مرد تھے۔ میں ڈر کے مارے چیخنے لگی’’ اب کیا لینے آئے ہو ، کیوں ہمارا جینا محال کر رکھا ہے۔ ہم چلے جائیں گے اِس جگہ سے، ہم پر رحم کھاؤ۔‘‘
اسی ایک ہی لمحے میں بنگالی عورتوں کی ہزاروں وحشت ناک کہانیاں میرے ذہن میں گردش کرنے لگیں۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ پچھلے سال ہمارے علاقے میں ایک سرکل ہوا تھا اور بی ایس او کے کچھ نوجوانوں نے ہم سے بنگلہ دیش کا ذکر کیا تھا، اْنہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ یہ بڑے اور چوڑے مرد، نازک صفت عورتوں کی ہڈی پسلی توڑ کر اور اْن کے جسم کو نوچ کر پھینک دیتے ہیں۔
ایک چوڑے بدن کے فوجی نے جس کی مونچھیں، اْس کے پورے منہ کو گھیرے ہوئے تھے، مجھے بازؤوں سے دبوجا اور اپنے ساتھ لے جانے لگا۔ میں نے اپنے آپ کو بہت چھڑوانا چاہا لیکن میری مثال اْس گِدھ کے سامنے چوزے کی سی تھی۔
میری چیخ بس چیخ ہی بن کر رہ گئی، کیوںکہ کوئی سْننے والا ہی نہ تھا۔ وہ گاؤں جو مجھے بہو کہتا تھا، وہ سو رہا تھا، کسی کا دروازہ خوف سے کْھلا ہی نہیں، شاید وہ سب مر گئے تھے یا شاید میرا گاؤں قبرستان میں تبدیل ہو چکا تھا یا پھر شاید میری چیخ اِن تمام مْردوں کی نیند میں خلل پیدا کر رہی تھی۔
میری آواز شاید اْن کے کانوں میں بس چْبھ رہی تھی اور وہ فوجی مجھے اپنے ساتھ لے گئے۔ کبھی میرا منہ دبوچا، کبھی پیٹ پہ لات ماری، کبھی میری اْنگلیاں توڑیں، تو کبھی میرا گریباں جھنجھوڑا، وہ لاج جس کی ہماری مردانہ سماج قسم کھاتے تھے، وہ ٹوٹ گیا۔
میں کمزور صنف ناز گْل
درندوں کی مار کھاتے ہوئے
زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے
مر گئی۔