مقصد کے حصول تک افغانستان میں موجود رہیں گے : امریکہ

160

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نامزد کردہ سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے اپنے نئے عہدے کی تصدیقی سماعت کے دوران کہا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ امریکا کا افغانستان کے حوالے سے کیا گیا فیصلہ ایک درست اقدام اور افغانستان کو مستحکم بنانے کے لیے اہم قدم ہے۔

سابق قانون دان مائیک پومپیو اور سی آئی اے کے حالیہ سربراہ گذشتہ روز امریکی سینیٹ کی خارجہ کمیٹی کے سامنے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اپنے سیکریٹری خارجہ کے عہدے کی نامزدگی کے دفاع کے لیے پیش ہوئے۔

اس موقع پر ریپبلک اور ڈیموکریٹک سینیٹرز نے امریکی صدر سے ان کے قریبی تعلقات اور مسلمانوں، ایران ، شام اور شمالی کوریا سے متعلق ان کے خیالات کے متعلق سوالات کیے۔

ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے کچھ سینیٹرز کا خیال تھا کہ ایسے معاملات پر ان کا سخت رویہ امریکا کو بیرون ملک جنگوں میں مزید دھکیل سکتا ہے۔

ریپبلکن سینیٹر رینڈ پال نے مائیک پومپیو سے پوچھا کہ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ اب افغانستان سے جانے کا وقت آگیا ہے، یاد رہے کہ سینیٹر رینڈ پال امریکا کے افغانستان چھوڑنے کی مہم کا اہم حصہ ہیں، جس پر مائیک پومپیو نے جواب دیا کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے افغانستان کے لیے کیے گئے اقدامات بہت اہم ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ہم ایک طویل عرصے سے افغانستان میں موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس میں افغانستان سے جانا بھی شامل ہے لیکن امریکا اس وقت وہاں سے جائے گا جب تک ہمارے ملک کو خطرہ پہنچانے والوں کا خاتمہ نہیں ہوجاتا، علاوہ ازیں مستقبل کے امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ نے کہا کہ اس مقصد کے حصول تک پہنچنے کے لیے امریکا کے اقدامات بالکل درست ہیں تاکہ افغانستان میں استحکام آسکے۔

سینیٹر پال نے امریکی صدر کے گذشتہ بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان سے جانے کا وقت آگیا اور پوچھا کہ کیا ان کے اور امریکی صدر کے خیالات میں اختلاف ہے، مائیک پومپیو نے کہا کہ میں یہ مانتا ہوں کہ ہم نے اس جنگ میں اپنا کردار ادا کیا ہے، میں آپکو اس بات کا آپ ہی کی طرح جواب دے سکتا ہوں لیکن ابھی مناسب موقع نہیں۔

سینیٹر پال نے تنقید کی کہ یہی وقت درست ہے کہ امریکا اپنی فوج افغانستان سے نکال لے، پاکستان اور افغانستان کے وہ دہشت گرد جو نائن الیون کے حملے میں ملوث تھے وہ سب تو نکالے جاچکے ہیں اور ہم اب ان سپاہیوں سے لڑ رہے ہیں جو اس المناک حادثے کے وقت دنیا میں بھی نہیں تھے۔

ایک اور ڈیموکریٹ سینیٹر کوری بوکر نے مائیک پومپیو ہی کی کانگریس میں دیئے گئے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کہا تھا کہ امریکا میں رہنے والے مسلمانوں پر دہشت گرد حملے روکنے کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور جو خاموش رہیں گے وہ ان حملوں میں شریک جرم مانے جائیں گے۔

اس سوال پر مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ انہوں نے ہر عقیدے کے افراد کو وہ عزت دی ہے جس کے وہ حقدار ہیں، انہوں نے کہا کہ ’میں نے مسلم رہنماؤں کے ساتھ مسلم ممالک میں کام کیا ہے اور سی آئی اے میں 15 مہینے کی مدت میں ہزاروں مسلمانوں کو بچایا‘۔

اس پر سینیٹر بوکر نے سوال کیا کہ آپ کیا سوچتے ہیں کہ امریکا میں رہنے والے مسلمان جو فوج میں اور حکومتی اداروں میں کام کر رہے ہیں اگر وہ دہشت گردی پر نہیں بولتے تو وہ دہشت گرد حملوں میں ملوث ہیں؟

مائیک پومپیو نے جواب دیا کہ ’نہ صرف امریکی شہریوں بلکہ ہر ایک انسان پر یہ لازم ہے کہ وہ جس بھی مذہب یا عقیدے سے تعلق رکھتا ہو انتہا پسندی سے دور رہے‘، سینیٹر بوکر نے دوبارہ سوال کیا تو کیا آپ مذاہب پر مبنی لوگوں کا ایک الگ گروہ نہیں بنارہے کہ جن پر دہشت گرد حملوں کی مذمت لازمی ہے؟

اس پر مائیک پومپیو نے جواب دیا کہ ایسا ہر گز نہیں ہے لیکن یہ میرا ماننا ہے کہ جب اس بات کی تصدیق کی جاتی ہے کہ جس علاقے سے مسلمانوں کا تعلق ہے وہاں دہشت گردی کے کیا حالات ہیں تو اس کا مطلب کوئی خاص جگہ نہیں ہے، یہ ایک فرض سے زیادہ ایک موقع ہے کہ جب کسی خاص مذہب سے تعلق رکھنے والے کی خصوصیات بتائی جائیں۔

اس جواب پر سینیٹر بوکر نے پوچھا کہ تو کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ امریکا میں مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والے افراد پر ان کے مذہب کی وجہ سے ایک علیحدہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟

جس پر مائیک پومپیو نے کہا کہ یہ ایک ذمہ داری نہیں یہ ایک موقع ہے۔