بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ تنظیم کے مرکزی رہنماؤں کی گمشدگیوں کو پانچ مہینے کا طویل عرصہ مکمل ہو چکا ہے لیکن تاحال ان کو بازیاب نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان کو کسی عدالت میں پیش کیا گیا ہے۔
15 نومبر 2017 کو سندھ رینجرز اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے بی ایس او آزاد کے مرکزی سیکریٹری جنرل ثنا اللہ بلوچ، مرکزی کمیٹی کے ممبران حسام بلوچ، نصیر احمد اور بی این ایم کے ممبر رفیق بلوچ کو کراچی میں ان کے رہائش گاہ سے گرفتار کرکے لاپتہ کردیا تھا۔
ثناہ اللہ بلوچ، نصیر احمد، حسام بلوچ اور رفیق بلوچ سیاسی کارکنان اور طالب علم تھے ان کے خلاف کسی بھی قسم کا کیس موجود نہیں تھا اس کے باوجود ریاستی اداروں نے تمام تر آئین و قوانین کو روند کر سیاسی کارکنان کو حسب روایات ماورائے عدالت گرفتار کرکے لاپتہ کردیا۔
ثناہ اللہ بلوچ، حسام بلوچ، نصیر احمد اور رفیق بلوچ کے جبری گمشدگیوں کے خلاف ان کے اہل خانہ اور تنظیم نے تمام تر قانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے پاکستان سمیت بین القوامی انسانی حقوق کے اداروں کے پاس کیس جمع کرادیے ہیں۔
ترجمان نے مزید کہا کہ بی ایس او آزاد کے سینکڑوں کارکنان و رہنماؤں کو ریاستی فورسز و خفیہ ادارے گرفتار کرکے لاپتہ کر چکے ہیں جن میں تنظیم کے سابقہ چئیرمین زاہد بلوچ اور سابقہ وائس چئیرمین ذاکر مجید بلوچ بھی شامل ہیں جبکہ درجنوں کارکنان کی مسخ شدہ لاشیں بھی برآمد ہوئے جن میں مرکزی جوائنٹ سیکریٹری شفیع بلوچ، مرکزی کمیٹی کے ممبران کمبر چاکر، کامریڈ قیوم بلوچ بھی شامل تھے۔ بی ایس او آزاد بلوچ نوجوانواں میں سیاسی شعور پیدا کرنے کے پاداش میں ہمیشہ سے ریاستی جبر کا شکار ہے لیکن بی ایس او آزاد نے تمام تر ریاستی جبر کے باوجود بھی اپنے جدوجہد کو جاری رکھا ہے۔
ترجمان نے انسانی حقوق کے عالمی اداروں کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے بلوچستان میں تعلیم حاصل کرنے پر قدغن لگایا ہوا ہے اس کے خلاف جدوجہد کرنے والے ریاستی نشانے پر ہوتے ہیں، طلباء حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے سیاسی کارکنان، طلباء اور اساتذہ سب سے زیادہ ریاستی نشانے پر ہوتے ہیں، انسانی حقوق کے عالمی ادارے بلوچ سیاسی کارکنان اور طلباء کے زندگیوں کو محفوظ بنانے کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالیں اور اپنی بنیادی ذمہ داریوں سے انصاف کریں۔