بلوچستان لبریشن فرنٹ کے ترجمان گہرام بلوچ نے نامعلوم مقام سے سٹیلائیٹ فون کے ذریعے بات کرتے ہوئے کہا کہ سرمچاروں نے اٹھائیس مارچ کو گورکوپ سے ہوشاب کے رہائشی اقبال ولد صوالی کو گرفتار کیا۔ وہ کچھ عرصہ پہلے اندرون خانہ سرنڈر کرکے بیرون ملک چلے گئے تھے اور حال ہی میں وہ بی ایل ایف سمیت ایک اور مزاحمتی تنظیم سے از خود رابطہ کرکے مسلح جدو جہد کرنے کیلئے راہیں تلاش کر رہاتھا چونکہ اُس کے سرنڈر اور ریاست کیلئے کام کرنے کی حامی بھرنے کی معلومات ہمیں موصول ہوگئی تھیں،ریاست اُسے سرمچاروں کے صفوں میں شامل کرواکر ساتھی سرمچاروں کو کسی طرح سے نقصان، جاسوسی اور لوکیشن جیسی معلومات کی ذمہ داری دے چکی تھی۔ گرفتاری کے بعد تفتیش اور پوچھ گچھ کے دوران اقبال ولد صوالی نے اعتراف جرم کیا اور اپنے ساتھیوں کے نام بھی فاش کئے۔ پاکستانی فوج کا ساتھ دینے پر اُسے کل موت کی سزا دیکر ہلاک کیا۔ کوئی بھی شخص بلوچ نسل کشی، جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث پاکستانی فوج کا ہمنوا ہوگا، اس کی سزا موت ہوگی۔
گہرام بلوچ نے کہا کہ کل ہوشاب میں جس نا خوشگوار اور افسوسناک واقعہ میں ایک بلوچ خاتون جمیلہ بنت صوالی جو مجرم اقبال کی ہمشیرہ ہیں شہید ہوئی ہیں وہ ایک قابل مذمت عمل ہے۔ کسی بھی بے گناہ شخص چاہے وہ مرد یا عورت ہو کو نشانہ بنانا ایک جرم ہے۔ بی ایل ایف ہر ایسے عمل کی مذمت کرتی ہے اور حتیٰ کہ جنگوں میں دو طرفہ نقصانات میں عورتوں اور بچوں کا خاص خیال رکھتی ہے کیونکہ ہماری جد و جہد عالمی اصولوں کے عین مطابق ہے جبکہ دشمن فوج تمام بین الاقوامی قوانین کو روند کر بلوچ نسل کشی میں مصروف ہے۔ اقبال ولد صوالی کی بی ایل ایف کی حراست کے دوران اُس کی بہن کو نشانہ بنانا ایک مشکوک واقعہ ہے جو کسی کی چال ہو سکتا ہے مگر اُسے سوشل میڈیا میں جس انداز میں اچھال کر بی ایل ایف کے خلاف ہرزہ سرائی اور پروپگنڈہ کیا جا رہا ہے، وہ 2012 سے 2017 تک بی ایل ایف کے خلاف سوشل میڈیا میں ہونے والی پروپگنڈہ کا حصہ اور تسلسل ہے مگر اس دفعہ لگام کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔
ہم اُن پر واضح کرتے ہیں کہ ان کی مسلح تنظیم کی جانب سے دشت ضلع کیچ میں دو مارچ 2015اکو یک خاتون کو بیٹے سمیت ہلاک کیا گیا۔ اسی طرح گزشتہ سال دشت میں اسی تنظیم کی جانب سے گرینیڈ حملے میں ایک خاتون ہلاک ہوئی تھیں مگر حالات کی نزاکت ، بلوچ معاشرہ میں عورت کا مقام اور اس کی حساسیت کے ساتھ بلوچ تحریک پر اس کے فوائد اور نقصانات کو مد نظر رکھ کر ہم نے کسی بھی ایسے واقعہ کو اچھالنے کے بجائے باہمی رابطوں کے ذریعے مربوط حکمت عملی بنانے پر زور دیا۔ مگر آج چند نا عاقبت اندیش ہوشاب واقعے کو بی ایل ایف سے جوڑ کر سوشل میڈیا میں ایک محاذ کھولنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس محاذ اور جھوٹے پروپگنڈہ کا مقصد حالیہ علمی بحث سے توجہ ہٹانا ہے چو ستائیس مارچ یوم قبضہ کی مناسبت سے سامنے آئی ہے۔ اس بحث پر کسی قسم کا دلیل ، ثبوت اور ریفرنس پیش نہ کر سکنے پر ہوشاب واقعہ کو بی ایل ایف پر تھونپنے کی کوشش شروع کی گئی۔ یہ ستائیس مارچ کی رد موقف کے اثر کو زائل کرنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ اسی رویہ کی بنیاد پر بی ایل ایف نے مزکورہ تنظیم سے گفت و شنید، مزکرات اور اشتراک عمل ترک کرکے انہیں سیاسی رویہ اپنانے کا عندیہ دیا مگر وہ مسلسل اسی رویہ کو دُہرا رہے ہیں۔
گہرام بلوچ نے کہا کہ ہم دوسروں کی طرح آزادی پسندوں کے خلاف ریاستی طرز موقف اور زبان استعمال نہیں کرتے۔ بی ایل ایف کی لیڈر شپ میں سنجیدہ سیاسی لیڈروں اور صاحب علم و صاحب مطالعہ دوستوں کی موجودگی اسے دوسری تنظیموں سے جداگانہ حیثیت فراہم کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کسی بھی وقت آزادی پسندوں کے خلاف ریاستی بیانیہ اور زبان استعمال نہیں کرتے اور کئی اوقات حالات اور وقت کو فیصلہ کرنے کا موقع دیتے ہیں۔
گہرام بلوچ نے کہا کہ جہاں تک جمیلہ بنت صوالی کی ہلاکت کا معاملہ ہے تو بی ایل ایف کیلئے کوئی جواز نہیں کہ وہ اُن کے گھر پر حملہ کرے کیونکہ مجرم اقبال پہلے ہی ہماری حراست میں تھا۔ قابض ریاست پاکستان بی ایل ایف کی مقبولیت اور عوامی حمایت کو ختم کرنے کیلئے اس طرح کی ناکام کوششیں کر رہی ہے۔ ایک ذمہ دار تنظیم اور علاقے میں موجود عوامی حمایت کو مد نظر رکھ کر بی ایل ایف اس واقعہ کے بارے میں تحقیقات کرکے تمام حقائق کو قوم کے سامنے پیش کرے گی۔