مثبت یا منفی – نادر بلوچ

530

مثبت یا منفی

تحریر: نادر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

مثبت اور منفی چار الفاظ سے بنتے ہیں۔ لکھنے میں یہ دونوں ساتھ ساتھ نظر بھی آتے ہیں لیکن اگر انکے معنی کی حساب سے دیکھیں تو یہ دو کبھی ایک سمت میں نہیں چلتے۔ سماج اور سماجی رویوں میں منفی اور مثبت پہلو کو دیکھیں بھی تو ہر سماج میں ہمیں دونوں اپنی اصل شکل میں نظر آئیں گی۔ ایسا کھبی نہیں ہوتا کہ سماج بلکل ہی مثبت ہو یا بلکل ہی منفی ہو۔ ان دونوں کا جتنا مطلب الگ ہے، اسی طرح انکا ایک دوسرے کی پہچان کے لیئے ہونا بھی ضروری ہے۔ ہاں ان دونوں میں سے کسی ایک کا زیادہ ہونا، سماج کی حیثیت اور نام ہی بدل دیتی ہے۔ یا تو وہ سماج مثبت سماج کہلائے گا یا منفی کہلائے گا۔ پھر باہر سے آنے والا کھبی دونوں کو ایک ساتھ نہیں دیکھے گا۔ تجزیہ کرنے والا یہی کہے گا کہ سماج مثبت یا منفی ہے۔ ان دونوں میں سے کسی ایک کا ذکر بھی نہیں ہوگا۔ حالانکہ سماج دونوں سے مل کے بنا ہے، اب بھی کہیں نہ کہیں منفی اصل شکل میں سماج کے توڑنے میں مصروف ہے۔ لیکن مثبت کا اشاریہ زیادہ ہونے کی وجہ سے سماج ترقی یافتہ ہوگی اور منفی کی وجہ سے غیر ترقی یافتہ ہوگی۔

بلوچ ہونے کی وجہ سے ہم ایک ایسے سماج میں پیدا ہوئے ہیں جہاں طویل غلامی نے ورثے میں ہمیں منفی دیا ہے۔ ایسا نہیں کہ بلوچ سماج میں مثبت کچھ نہیں۔ مثبت بھی ہے لیکن اشاریہ اتنی کم ہے کہ ہم قومی غلامی کو جھیل رہے ہیں۔ ایسا بھی تاریخ میں ہے کہ ہم کچھ عرصے کے لیے آزاد اقوام میں بھی شماررہے ہیں۔ لیکن ہم اسکو قائم رکھ نہیں پائے ہیں اسکی وجہ مثبت اور منفی کا تناسب قریباً ایک جیسا رہا ہوگا۔ جسکی وجہ سےقوم اپنی آزادی کو برقرار نہیں رکھ پایا۔ کیوں کہ ہمارے اسوقت کے رہنماوں نے مثبت کی تناسب کو زیادہ اہمیت نہیں دی یا اسکے لیئے کوشیش کم کی۔ اس لیے جب منفی سوچ کو موقع ملا اس نے قومی غلامی کو قوم کو تحفے میں دی۔ ایسا نہیں کہ منفی نے غلامی کو ماتم کرتے ہوئے دی بلکہ خوشی خوشی کیوں کہ منفی اپنی خصوصیات کی وجہ سے منفی ہے تو عمل بھی منفی کرتی ہے، جس پر اسے کو ملال نہیں ہوتی۔

یورپ یا مغرب آج دنیا کے بہترین سماج اور اقوام میں شامل ہیں۔ باقی دنیا کے لیئے بھی ترقی کے راز بھی وہیں سے کھلتے ہیں، وہ اس مقام تک مثبت کے ذریعے ہی پہنچے ہیں۔ ایسا نہیں کہ منفی رویہ اس سماج میں نہیں، لیکن کم ہے اور جب منفی عمل انکے نظر میں آتی ہے، اس کو مثبت کرنے میں لگ جاتے ہیں اور تب تک چین سے نہیں بیٹھتے، جب تک منفی کا خاتمہ نہ ہو۔ منفی کو مثبت میں تبدیل کرتے ہیں۔ اسکے لیئے مثبت کی تعداد بڑھا دیتے ہیں۔اگرمنفی کومنفی سے تبدیل کرنے کی کوشیش کریں تو منفی پر کچھ اثر نہیں پڑتی بلکہ جمع ہو کر بڑھ جاتی ہے۔اس لیئے سماج وہیں کا وہیں رہ جاتا ہے یا بلکل پیچھے چلی جاتی ہے۔

میڑھ مرکہ بلوچ ثقافت کا ایک اہم جز ہے جو کسی بھی مشکل یا مسئلے کے حل کے لیئے ہوتی ہے۔ لیکن بعض دفعہ دیکھنے میں آتا ہے کہ میڑھ میں جانے والے ہی لڑ پڑتے ہیں جاتے ہوئے انکی نیت مثبت تھی لیکن کسی منفی عمل سے مثبت کو منفی میں تبدیل ہونا پڑا جس سے نتیجہ منفی نکلا۔
بلوچ قومی تحریک آج اپنے پانچویں ابھار کے ساتھ قبضہ گیر ریاست سے نبرد آزما ہے۔ یہاں تک پہنچنے کے لیئے ہزاروں درد و غم سے اس قوم کا پالا پڑا ہے۔ ہمارے کم سیھکنے کی وجہ سے جہاں دنیا ایک کتاب لیکر سیکھتی ہے، وہاں پر ہم اپنے نوجوانوں کے خون اور جان کی قربانی دیکر سیکھتے ہیں۔ آج بھی اگر ہم جائزہ لیں تو دیکھیں گے کہ تحریک کو اس نہج تک کامیابی سے پہنچانے والے ہزاورں کی تعداد میں شہدا اور اسیر نظر آئیں گے۔ کیوں ہمیں اپنی اوقات سمجھنے کے لیئے بھی خون کی ضرورت پڑتی ہے؟ ہمارے رویوں کو تبدیل کرنے کےلیئے بھی بلوچ نوجوانوں کو سولیوں پر چڑھنا پڑتا ہے۔ خون تو دوسرے اقوام نے آزادی کے لیئے دی تھی۔ خون اور جان کی قربانی کا نعم البدل آزادی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ سماجی اور سیاسی رویے ہمارے بس میں ہیں، صرف ہم کو خود منفی اور مثبت کی پہچان ہونی چاہیئے۔ کون سا عمل مثبت ہے اور کونسی منفی اور ہمارا ایمان ہے کہ بلوچ قوم اور قومی تحریک کے لیئے ہر دوست اور تنظیم، مثبت کو ہی چنے گا۔ کوششوں کے باوجود اگر عمل کا چناو غلط بھی ہو تو اسکو مثبت انداز میں حل کرکے قوم کو آگے بڑھنے کا موقع دیا جاے گا۔ مثبت اور منفی سوچ کو منشاء میں رکھنے کے لیئے سوچنے،بولنے، لکھنے، سے ہی پرکھنا ہوگا۔ یہی زرائع ہیں سماج میں سیاسی اور شعوری تبدیلی لانے کے لیئے اس لیئے انکا استعمال بھی اتنی ہی ذمہ داری سے کرنی چاہیے جیسے کہ آزادی اور قومی سوچ کی کی جاتی ہے۔

کسی بھی کارکن کا اپنے لیڈر یا تنظیم سے محبت کا پیمانہ ہاں سے ہاں ملانا ہرگزنہیں ہوتا بلکہ اپنے تنظیم اور لیڈرشب کو مثبت اور منفی عمل میں اچھے اور شعوری مشوروں سے ہوتی ہے۔ تاکہ تنظیم اپنے اصل مقصد کے لیے تیار ہوسکے۔ کسی بھی غلط عمل سے مایوس اور بیزار بھی نا ہوں بلکہ جوڑے رہ کر ہی مثبت عمل کو سامنے لایا جائے۔اسی طرح ہر عمل بھی شروع سے کامل نہیں ہوتی غلطیاں عمل کا حصہ ہوتی ہیں، مگر پھر ذمہ داری بنتی ہے کہ اس سے کیسے سیکھا جائے۔ اسی طرح قومی تحریک میں شامل تمام قوتوں کو یکساں نظر سے دیکھ کرتحریک کو مزید مثبت بنانے کے لیئے کردارادا کیا جا سکتا ہے۔ بعض اوقات دیکھنے میں آتا ہے کہ مہینوں تک غائب رہنے والےدوست کسی منفی عمل کے دنوں میں نظر آجاتے ہیں اور پھر فتوے دیکر قومی زمہ داری کو انجام دیکر مہینوں کسی اور منفیت کے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں۔ مثبت سوچ اور عمل کو برقرار رکھنے کے لیئے مسلسل اور بلا تعطل کوشیش کرنی پڑتی ہے، اسکے لیئے متحرک رہنا پڑتا ہے۔ یہ ایک سیکھنے کا عمل ہے، جو چلتی رہتی ہے۔ لیڈر سے لیکر کیڈر تک سب کو پالیسیوں کے زریعے متحرک رہ کر تنظیم کو قومی عمل میں کردار ادا کرنے کا موقع فراہم ہوتا ہے۔ جب سوچنا ، لکھنا ، بولنا مثبت ہوگا تب ہی ہم اپنے قوم کو خوشحالی اور آزادی کی طرف لے جانے میں کامیاب ہوں گے۔