افغانستان میں حکام کا کہنا ہے کہ بدھ کی علی الصبح جنوبی افغانستان میں ہونے والے ایک بم حملے میں علاقائی سلامتی کے چوٹی کے کمانڈر اور اُن کے متعدد محافظ ہلاک ہوئے۔
افغان حکام نے قتل ہونے والے اہلکار کی شناخت جانان ماما کے نام سے کی ہے، جو صوبہٴ قندھار میں سرحدی پولیس فورس کے ’کرائسز ریسپونس یونٹ‘ کے سربراہ تھے۔
صوبائی حکومت کے ترجمان نے کہا ہے کہ ’چپک جانے والے بم‘ (دھماکہ خیز ڈوائس جس پر ایڈہیسو پیڈ‘ چڑھا ہوا ہوتا ہے) پولیس کمانڈر کی گاڑی سے چپکایا گیا تھا۔
طالبان باغیوں نے فوری طور پر بم دھماکے کی ذمے داری قبول کی ہے، جسے اُنھوں نے ’’ایک مؤثر دھماکہ‘‘ قرار دیا، جو صوبائی دارالحکومت قندھار میں جانان کے قافلے پر کیا گیا۔ اس سے پیشتر باغی افغان سکیورٹی اہل کاروں کو نشانہ بنانے کے لیے ’اسٹکی بم‘ نصب کرتے رہے ہیں۔
ذرائع ابلاغ کو بھیجے گئے ایک بیان میں طالبان کے ایک ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ دھماکے کے نتیجے میں چھ دیگر سکیورٹی اہل کار بھی ہلاک ہوئے، حالانکہ عام طور پر باغیوں کی جانب سے ہلاکتوں سے متعلق اعداد مبالغہ آرائی پر مبنی ہوتے ہیں۔
باغیوں نے قتل ہونے والے پولیس کمانڈر کو جنوبی افغان خطے کے لیے امریکہ کا ایک کلیدی اتحادی قرار دیا ہے۔
جانان طالبان مخالف طاقتور پولیس سربراہ، جنرل عبدالرازق کے قریبی ساتھی تھے۔
عام خیال ہے کہ اس ماہ کے اواخر میں طالبان خودساختہ سالانہ موسم بہار کی سرگرمی کا اعلان کریں گے، جس کے نتیجے میں ملک بھر میں باغیانہ حملوں کا ایک سلسلہ چل پڑتا ہے۔
لیکن، پہلے ہی افغان سلامتی افواج کی ہلاکتوں اور ضلعی مراکز پر باغیوں کے حملوں میں خاصا اضافہ دیکھا گیا ہے، جس کے نتیجے میں امریکی قیادت والی افغان سکیورٹی فورسز کی جانب سے مساوی نوعیت کا تیز اقدام سامنے آتا ہے۔
مخاصمانہ کارروائیوں میں اس سال پہلے ہی افغان شہریوں کی ہلاکتوں میں کافی اضافہ نظر آ چکا ہے۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے اعانتی مشن نے بتایا ہے کہ 2018ء کے پہلے تین ماہ کے دوران 2260 شہری متاثر ہوئے، جن میں 700 سے زائد ہلاکتیں شامل ہیں۔