ستائیس مارچ کے حوالے پارٹی صدر نواب براہمدغ خان بگٹی کا اپنے متنازع بیان پر ڈٹے رہنے، ڈیڈ لاک برقرار رکھنے اور پارٹی کارکنوں کے ڈرافٹ کا دو ہفتہ گذر جانے کے باوجود کوئی جواب نا دینے کی وجہ سے دی ریپبلکن کمیٹی سے منسلک بی آر پی اور بی آر ایس او کے تمام کارکنوں نے پارٹی زونل صدور اور مرکز کو اپنے استعفیٰ نامے آج ارسال کر دیئے ہیں۔
دی ریپبلکن کمیٹی نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ آج ہم متفقہ طور پر بلوچ ریپبلکن پارٹی اور بلوچ ریپبلکن سٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے مستعفی ہوکر پارٹی سے لا تعلقی کا باضابطہ اعلان کرتے ہیں، مستعفی ہونے والے پارٹی ممبران کا تعلق برطانیہ چیپٹر، جرمنی چیپٹر، کینیڈا، خلیجی ممالک، کراچی اور مکران سے ہیں، جنکے نام باقاعدہ طور پر مرکز کو بذریعہ ای میل ارسال کر دیئے گئے ہیں۔
کمیٹی نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ حالات کی حساسیت کو سمجھتے ہوئے ہمخیال کارکنوں کے نام میڈیا میں نہیں لانا چاہتے ہیں، پارٹی میں نظریاتی بحران نے اس وقت شدت اختیار کر لیا، جب پارٹی کے مرکزی صدر براہمدغ خان بگٹی نے ٹوئیٹر پر جاری کردہ بیان میں کہا کہ ” 27 مارچ 1948 کو بلوچستان پر پاکستانی قبضے کا دن تسلیم نہیں کرتے ہیں، یہ قبضہ محض ایک علاقے پہ ہوا ہے اور باقی ریاستوں اور قبائلی اکابرین نے اپنی اپنی مرضی سے پاکستان کے ساتھ الحاق کی تھی، انہوں نے آگے کہا تھا انکے آبا و اجداد نے ہمیشہ پاکستان کے اندر رہتے ہوئے حقوق کی جدوجہد کی ہے ”
اس حوالے پارٹی کے نظریاتی کارکنوں نے پارٹی صدر، مرکز اور اپنے اپنے زونل صدور کو ایک لیٹر ڈرافٹ ارسال کیا جس میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ اس متنازعہ بیان پر ہمارے تحفظات اور خدشات ہیں لہٰذا پارٹی صدر اس حوالے پارٹی کارکنان کے تحفظات دور کریں۔
ہمارا سوال تھا کہ پارٹی پالیسی میں قومی تحریک کے بنیادی قاعدے کے برخلاف اتنی بڑی یو ٹرن کب اور کیسے ممکن ہوا؟ بی آر پی کے مرکزی صدر نے بلوچستان پر قبضے حوالے کن بلوچ دانشوران یا غیر بلوچ دانشوران یا تاریخ دانوں کو سٹڈی کرنے یا ان کو آن بورڈ لینے کے بعد اس تاریخی دن سے رو گردانی کی ہے؟ پارٹی صدر کی جانب سے جاری کردہ بیان کے بعد دوستوں نے مرکزی کابینہ اور مرکزی کمیٹی کے ممبران سے بھی انفرادی رابطہ کیا، تو انکی جانب سے متضاد رائے سننے کو ملے جس سے یہ بات بخوبی اخذ کی گئی کہ یہ فیصلہ محض چند لوگوں نے جینیوا میں بیٹھ کر طے کیا ہے، پارٹی ورکرز کے علاوہ پارٹی کے کچھ مرکزی رہنماؤں کے بھی تحفظات تھے، جو شاید اب وقتی مجبوریوں اور مراعات کے بنا پر خاموش ہیں اور کچھ کہنے سے قاصر ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ پارٹی قیادت کو ہمیشہ آگے پیش آنے والے چیلنجز کا ادراک ہونا چاہئے اور زمینی حقائق کو مدِنظر رکھتے ہوئے ایسی حکمتِ عملی اور پالیسیاں بنانی چاہیئے، جو مستقبل میں اجتماعی قومی مفاد میں ہوں ناکہ قومی انتشار اور کارکنوں میں ذہنی اضطراب پیدا کرنے کا سبب بنیں۔
کمیٹی نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ہم نے وقتاً فوقتاً پارٹی کی غلط پالیسیوں اور غیر آئینی اقدامات پر پارٹی کے اندر آواز بلند کی ہے، لیکن چونکہ پارٹی پر ایک مخصوص گروہ کی اجارہ داری ہے تو ہماری آواز کو کبھی اتنی اہمیت نا دی گئی اور نا سنجیدگی سے لیا گیا۔
بلوچ ریپبلکن پارٹی جس کے آئین کے مطابق ہرتین سال بعد قومی کونسل منعقد کرنا لازمی جز ہے، جبکہ چھ سات سال گذرنے کے باوجود ابھی تک پارٹی کا قومی کونسل طلب نہیں کیا گیا ہے۔
آئینی نگاہ سے دیکھا جائے تو پارٹی کا مرکزی کابینہ یا مرکزی کمیٹی کا ڈھانچہ اور سات سال پہلے کا تعین شدہ آئین و منشور خود بخود اب غیر آئینی اور تحلیل ہو چکے ہیں، پارٹی نا صرف جمہوری طرز سیاست کی مکمل ضد بن چکی ہے بلکہ انفرادی اور گروہی سوچ کو فروغ دی جا رہی ہے، جس کی واضح مثال کارکنوں کی کثیر تعداد کو پارٹی قیادت کی جانب سے یکدم نظر انداز کرنے سے عیاں ہے. جمہوری قومی جماعتوں میں ایشوز پر اختلافات رکھنا، تنقید کرنا اور بحث مباحثوں کی مکمل حق ہر پارٹی ممبر کو ہوتا ہے.
ہمارا ڈرافٹ اور سوالات کا مقصد ہی ایک جمہوری طرز سیاست کو پارٹی کے اندر فروغ دینا تھا، جسے مخصوص گروہ کی خوشنودی کی خاطر نظر انداز کرنا اور ایک حساس معاملے کو پیچیدہ بناکر قومی تحریک میں انتشار پھیلانے اور قوم میں مایوسی پھیلانے جیسے اقدام ہی ہمارے استعفوں کے سبب بنے۔
ہم اس مقصد کیلئے عارضی طور پر قائم عبوری کمیٹی دی ریپبلکن کمیٹی کے تحلیل کا بھی اعلان کرتے ہیں۔