عورت صبح نو کی امید
تحریر:مسلم بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ: کالم
بقول ارسطو انسان ایک سماجی حیوان ہے، اسے اپنی زندگی کی ضروریات پوری کرنے کے لیئے قدم قدم پر اپنے جیسے حیوانوں کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ وہ تن تنہا اپنی ضروریات پوری نہیں کر سکتا اور اپنی اس ضروریات کی تکمیل کے لئے انسان ایک اجتماع کی شکل میں رہنا پسند کرتا ہے اور انسانوں کا یہ اجتماعی رہن سہن معاشرہ کہلاتا ہے۔ ایک بہترین معاشرے کی تشکیل کے لیے ہر فرد، ہر طبقے اور ہر شعبے سے منسلک افراد اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
کسی بھی طبقے اور شعبے سے منسلک افراد کا منفی کردار معاشرے کو تباہی و بربادی کی طرف لے جاتی ہے۔ کسی بھی معاشرے میں مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد اور طبقات شامل ہوتے ہیں اور یہ طبقات ایک دوسرے کی مدد کے بغیر معاشرے کو خوش حال اور ترقی یافتہ نہیں بنا سکتے ۔ ایک سماج میں رہنے والے افراد کو مختلف چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ ان سے مستفید ہو کر اپنی زندگی کو خوش حال بناسکیں، زندہ رہنے کے لئے غذا کی ضرورت جو ایک کسان (دہقان) کے کردار اور مدد کے بغیر نا ممکن امر ہے، جو زمین میں فصل اگا کر ہمیں اپنی معاشی ضروریات کا سامان مہیا کرتا ہے۔ شعبہ طب سے تعلق رکھنے والے افراد معاشرے کے لوگوں کا علاج و معالجہ کرنے کے فرائض ادا کرتے ہیں۔
ایک معاشرے کی بہتری میں استاد کا کردار بھی اہم ہوتا ہے جو اپنے شاگردوں کی بہتر تربیت کرکے انہیں ایک قابل فرد بناتا ہے، اسی طرح ایک طالب علم بھی معاشرے کا ایک اہم جز ہوتا ہے، معاشرے کی اصلاح ہر دور میں اس نوجوان طبقے نے اپنے ذمے لیا۔ اپنی ذمہ داریوں کو مخلصی اور ایمان داری سے ادا کرکے معاشرے میں جنم لینے والی برائیوں کے علاوہ معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے والے عوامل کے خلاف اہم کردار ادا کرسکتے ہیں کیونکہ یہ طبقہ گفتار سے زیادہ عمل کو اہمیت دیتا ہے۔ طالب علم طبقہ معاشرے کے دیگر طبقوں سے زیادہ پرجوش، پرعزم اور بلند حوصلوں کے مالک ہوتے ہیں اور اپنے اس بلند حوصلے کی وجہ سے معاشرے میں حقیقی معنوں میں تبدیلی و انقلاب لانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اسی طرح ایک سماج میں ادیبوں و دانشوروں کے کردار کے بغیر طالب علم اپنے انقلاب کو انجام تک پہنچانے سے قاصر رہتے ہیں، یہ طبقہ معاشرے کی بقا اور اصلاح میں اہمیت کا حامل ہوتا ہے، وہ سماج کے منتشر عام لوگوں کو بیدار کرکے ان میں ایک نیا جوش و ولولہ پیدا کرتے ہیں، وہ اپنی تخلیقات کے ذریعے معاشرے میں سماجی شعور کو جنم دیتے ہیں اور منجمد معاشرے کو صیح ڈگر پر رواں رکھتے ہیں۔ شاعر اپنی شاعری سے لوگوں میں جذبہ ابھارتا ہے، وہ بکھرے ہوئے الفاظوں کو ایک لڑی میں پرو کر معاشرے کو زندہ رکھتا ہے، غرض انسانی سماج میں ہر فرد اپنے شعبے سے منسلک رہ کر معاشرے کی بہتری کے لئے خدمات انجام دینے میں مصروف عمل ہے اور وہ ایک دوسرے کے کاموں سے مستفید ہو کر اپنے زندگی کو رواں رکھتے ہوئے، معاشرے کی فلاح و بہبود میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔
اگر ہم کسی بھی معاشرے میں رہنے والے طبقوں پر نظر دوڑائیں، تو یہ طبقات جنس کے لحاظ سے دو حصوں میں تقسیم ہیں، ایک مرد ذات اور دوسری صنف نازک، جسے عرف عام میں عورت کہتے ہیں اور اس دنیا میں جتنی آبادی مردوں کی ہے، اتنی ہی آبادی عورتوں پر مشتمل ہے اور ان دونوں کے باہمی کردار کے بغیر معاشرے کی ترقی نہ صرف مشکل ہے بلکہ ناممکن بھی ہے۔ عورت کا کردار معاشرے میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ دنیا میں مردوں کو جنم دینے اور ان بچوں کی تربیت کی ذمہ داری انکے نازک کندھوں پر ہوتی ہے، عورت ایک ماں بن کر اپنے بچوں کی شخصیت کو سنوارتی ہے، انہیں ہر مشکل سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت عطا کرتی ہے، بقول شاعر کہ وجود زن سے ہے کائنات میں رنگ.
کسی بھی سماج میں عورت کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے، وہ معاشرہ مغربی ہو یا مشرقی، ہاں! ہر معاشرے کا اپنا مزاج ہوتا ہے لیکن کہیں بھی عورت کے کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا، عورت ہی فرد کی انفرادی تربیت کرتا ہے، کسی بھی شخصیت کے کرداری تعمیر اگر مثبت انداز میں ہو اور اسے اعلیٰ اخلاقی اقدار سے روشناس کرایا جائے، تو معاشرے سے منفی سرگرمیوں کا خاتمہ ہوسکتا ہے اور وہ بنیادی کردار ایک عورت ہی ادا کرسکتی ہے۔ عورت کی عظمت کا اندازہ ایک ادیب کی ان باتوں سے لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا میں جتنی بھی عظیم شخصیتں گذری ہیں، ان عظیم لوگوں کی عظیم ماوں کی مرہون منت انہوں نے یہ اعلیٰ مقام حاصل کیا۔