شہید غلام محمد بلوچ کی حالت زندگی
تحریر ۔ شئے رحمت بلوچ
میں آج فخر سے کہتا ہوں، کہ ہم کو ایک ایسے مضبوط لیڈر شپ ملی ہے، جو ہمارے لیئے، قوم کے لیئے ہر طرح کی قربانیاں دینے کو تیار ہیں۔ جنہوں نے اپنے جان کو داؤ پہ لگا کر بلوچ قوم کو آزادی کا پیغام سخت اور مشکل حالات میں پہنچاتے رہے اور اپنے قوم سے مضبوط رابطے میں رہے۔ ہم اپنے لیڈر شپ سے یہی امید رکھتے ہیں کہ وہ مستقبل میں بھی اسی طرح سے قوم کی رہنمائی کرتے رہینگے۔ ہمارے کئی لیڈران شہید بھی ہوچکے ہیں اور کئی لیڈران زندانوں اور دشمن کے ٹارچر سیلوں میں اذیت سہہ رہے ہیں۔
میں اتنا قابل لکھاری نہیں جو اپنے لیڈر شپ کی قربانیوں کو وضاحت کر سکوں۔ میں آج شہید غلام محمد بلوچ کے بارے میں کچھ لکھنا چاھتا ہوں۔ اُسکے بارے میں اپنے خیالوں کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ شہید غلام محمد بلوچ ہمیشہ جّرت اور بہادری کے ساتھ دشمن کو منہ توڑ جواب دے کر انُکا سامنا کرتا رہا۔ اپنے حق کی بات کرتے رہے۔ شہید غلام محمد بلوچ کی شہادت پر بین القوامی اور تمام انسانیت دوست اداروں کا خاموش رہنا، یقیناً قابلِ افسوس ہے۔ شہید غلام محمد بلوچ کی شہادت سے بلوچ قوم مایوس تو ضرور ہوا ہوگا، لیکن میں اپنے قوم کو کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ ہمیں اُنکے Mission اور commitment کو آگے بڑھانا چاہیئے۔
شہید غلام محمد یکم جنوری 1958 کو مند کے ایک معزز قبیلے سورو میں میر ایوب رند کے گھر میں پیدا ہوئے۔ شہید غلام محمد نے اپنی ابتدائی تعلیم پانچ سال کے عمر میں گورنمنٹ مڈل اسکول سورو سے داخلہ لے کر شروع کیا اور 1974 کو بی ایس او کی سیاست میں فدا بلوچ کی سربراہی میں شمو لیت اختیار کی ۔ بی ایس او کے ایک سرگرم کارکن کے حیثیت سے تنظیمی کاموں کو دلچسپی سے سرانجام دیتے رہے۔ بی ایس او کے مند زون جنرل سیکریٹری کے عہدے پر فائض رہ کر بی ایس او میں منحرک رہ کر اہم کردار ادا کرتے رہے اور مند میں ایک اچھے طریقے سے تنظیم کے کاموں کو سرانجام دیتے رہے۔
1981 میں ہائی اسکول سورو سے میٹرک پاس کرکے مزید تعلیم کے لیئے کراچی چلے گئے۔ 1982 میں سندھ مسلم کالج میں (fsc) میں داخلے لیکر اپنی تعلیم جاری رکھی، وہ اپنے زندگی کا ہر لمحہ ایک اچھے طریقے سے گُذارتے رہے اور وہ اپنے فارغ وقت کو کبھی بھی فضول ضائع نہیں ہونے دیتے، یہ انکی خوبی اور عظیم سوچ تھی، جو انکو باقی طلبہ سے الگ ظاہر کرتا۔ پڑھنے کے ساتھ ساتھ باقاعدہ تنظیمی کاموں کو اچھے طریقے سے سر انجام دیتے رہےاور تنظیمی سرگرمیاں جارہی رکھتے ہوئے بی ایس او کے کراچی زون کے صدر کے عہدے پر منتخب ہوئے ۔انہوں نے کراچی سندھ میں بی ایس او کو منضم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
اس دوران 1984 میں بی ایس او کے دو گروپوں میں انضمام کرانے میں اہم کردار ادا کیا اور 1984 کے کونسل سیشن میں سندھ کے صوبائی صدر منتخب ہوئے اور 1985 کے اواخر میں سندھ مسلم کالج سے (بی اے ) پاس کرکے مزید تعلیم کےلیئے تنظیمی دوستوں کے کہنے پر بلوچستان یونیورسٹی شال (کوئٹہ ) میں (ایم ۔اے ) میں داخلہ لے کر اپنے پڑھائی کا سلسلہ اور سیاسی ، تنظیمی سرگرمیان بھی جاری رکھیں اور تعلیم کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی رہنما نہیں بلکہ ادیب، شاعراور مقرر بھی تھے۔ آپ نے سیاست میں قدم رکھتے ہی بلوچ قومی کاز اور بلوچ نیشنلزم کے بنیاد پر اپنا سیاسی فلسفہ اور نظریہ پروان چڑھایا۔ وہ ہر وقت پاکستانی الیکشنوں کی مخالفت کرتے رہے اور آپ ایک مخلص اور سادہ زندگی کے مالک تھے۔
۔ 1986 میں بی ایس او کے مرکزی جونئیر وائس چئیرمین اور بعد میں قائم مقام جونئیر وائس چئیر مین کی عہدے پر زمہ داریان سر انجام دیتے رہے۔ 1988 میں بی ایس او کے مرکزی سیکیرٹری جنرل اور 1990 بی ایس او کے مرکزی چئیرمین کے عہدے پر فائض رہے۔
۔
1993 میں بی ایس او سے فارغ ہوکر بلوچستان نیشنل مومنٹ (bnm) میں شمولیت اختیار کرکے اور پھر شہید فدا بلوچ کو اپنا نظریہ حیات بنا کر سیاست کرتے رہے۔
1994 میں ایک سازش کی بنیاد پر آپکو ضلح کیچ کے بی ایں ایم (bnm) کے زونل صدر کے عہدے پر مجبوراً زمہ داری لینا پڑا۔
۰ 1997 میں بلوچستان نیشنل مومنٹ (bnm) کے مرکزی جونیئر نائب صدر اور سیینئر نائب صدر کے عہدے پر فائض رہ کر سیاست کرتے رہے ۔ اور اس دوران ڈاکٹر مالک اور حٰئی سے اختلافات رکھنے کے باوجود بلوچستان نیشنل مومنٹ (bnm) میں اپنے نظریے اور فلسفے پر سیاست کرتے رہے۔ آپ کا اختلافات حٰئی اور ڈاکٹر مالک کے گروپ 2002 میں پارٹی کے اندر واضح ہوئے اور بعد میں 2002 کے سیشن میں کُھل کر سامنے آئے اور اس دوران آپ نے بلوچستان نیشنل مومنٹ (bnm) کے کوئی عہدے پر فائض نہیں رہے ۔
پاکستانی پارلیمانی سیاست سے بلکل کنارہ کُش ہوکر اپنے موقف پر قائم رہے۔ جب حٰئی و مالک نے حاصل بزنجو سے ملکر نیشنل پارٹی بنایا، تو آپ شہید غلام محمد نے نظریاتی دوستوں لالا مُنیر اور دوسرے دوستوں کے ساتھ ملکر بی ان ایم bnm 2003 بلوچستان نیشنل مومنٹ کو قائم دائم رکھا مرکزی آرگنائزر مقرر ہوئے اور لالا منیر احمد بلوچ ڈپٹی آرگنائزر کے عہدے پر فرائض انجام دیتے رہے۔
۔
2004 میں بی این ایم کا کونسل سیشن منعقد کرکے پارٹی کا نام بلوچ نیشنل مومنٹ رکھا اور شہید غلام محمد پارٹی کے چیئرمین اور لالا منیر پارٹی کے وائس چیئرمین مقرر ہوئے، 3 دسمبر 2006 کو کراچی سے چیئر مین غلام محمد اور شیر محمد بلوچ پاکستانی خفیہ اداران کے ہاتھوں گرفتار ہوکر نو مہینے سے زیادہ عرصے تک لاپتہ ہوئے۔ بعد ازاں ستمبر 2007 کو سبی سے بازیاب ہوکر تربت سینٹرل جیل میں لائے گئے اور دس دسمبر کو جیل سے بازیاب ہوکر پھر آپ نے اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھیں، اس دوران آپ ہمیشہ اپنے مقدموں کے سلسلے کی پیشی کیلئے تربت آتے رہے اور تین اپریل 2009 کو کچکول علی ایڈوکیٹ کے دفتر سے شہید غلام محمد اور لالا منیر اور شیر محمد پاکستانی ایجنسی اور ایف سی کے اہلکاروں نے اغوا کرکے 9 اپریل 2009 انکی مسخ شدہ لاشیں تربت کے علاقے مرگاپ میں پھینک دیئے۔
ہم امید رکھتے ہیں کہ ہماری لیڈر شپ اسی طرح سے اپنے فرائض سرانجام دیتے رہینگے۔