رحمت قلم کار، شاہین جہد کار – علیزہ بلوچ

518

رحمت قلم کار، شاہین جہد کار

تحریر: علیزہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : کالم

یہ بات سب پر عیاں ہوچکی ہے کہ آج ریاست نے بلوچ قوم کے ہر طبقے پر وار کیا ہے. جس سے ایک بھی بلوچ محفوظ نہیں ہے، جس کی وجہ سے آج بلوچستان کے ہر گھر میں سوگ جیسا ماحول بنا ہے، بلوچستان بھر میں ہر بلوچ خاندان کی خوشیاں غم میں بدل گئی ہیں، بہت سے بلوچ نوجوان دشمن کے ٹارچر سیلوں میں اذیتیں سہہ سہہ کر شہید ہوئے، بہت سے نوجوان ابھی بھی زندان میں اذیتیں سہہ رہے ہیں، کئیوں کی مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں ہمیں۔ ہر طرح سے ریاست ہمیں ہماری زمین پر بلوچ ہونے کی سزا دے رہا ہے۔
اس طویل سفر میں بلوچ قوم کا ہر طبقہ قربانی دے رہا ہے. ننگ کے اس جنگ میں ادیب و زانتکار، بزغر و شوان، ڈاکٹر و سیاست کار، درزی، دکاندار ٹیچر اور صحافی برادری سب نے قربانیاں دیں ہیں اس قوم کے نوجوان بچے بوڑھے سب اسی انتظار میں ہیں کہ کب ہمارا روشن صبح اس اندھیری رات کو ختم کرنے آئے گا؟ اس روشن صبح کے لیئے نجانے کتنوں نے اپنے قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔

انہی ناموں میں سے ایک نام شہید رحمت للہ شاہین کا بھی ہے، جنہوں نے میڈیا وار کے اس جنگ میں ایک بے لوث کردار ادا کیا۔ مچھ پریس کلب کے سینئر صحافی، ادیب و شاعر اور کالم نگار رحمت اللہ شاہین اسپلنجی میں 3 مارچ 1978 کو پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم کے بعد انکی فیملی کاروبار کے سلسلے میں مچھ منتقل ہوگئی، جہاں مچھ ہائی سکول سے انہوں نے میٹرک پاس کیا اور مزید تعلیم کے لئے بھاگ انٹر کالج میں ایڈمیشن لی اور 1998 میں fsc کا امتحان پاس کر لیا انہی دنوں انہوں نے ادب کی دنیا میں قدم رکھا اور تخلص شاہین کو شرف بخشا۔

سکول کے دور سے 1994 میں انہوں نے سیاست شروع کی تھی جہاں BSO خیرجان گروپ کیساتھ کام شروع کیا، پھر کچھ نظریاتی اختلافات کی بنیاد پر BSO سعید کے ساتھ ہمراہی کر لی سنہ 2000 میں انہوں نے “ایلم”(رسالہ) کے لیئے اپنی لکھی ہوئی شاعری بھیجتے رہے. 2000 کے بعد BSO حئی گروپ سے ڈاکٹر اللہ نزر بلوچ اپنے کچھ نظریاتی و فکری ساتھیوں کے ساتھ الگ ہوئے، ڈاکٹر کے دوست مُٹھی بھر مگر نظریاتی و فکری حوالے سے ان کا ایمان پختہ تھا، شاہین نے ڈاکٹر کی قوم وطن دوستی، فکرو نظریہ سے متاثر ہو کر ڈاکٹر کے قافلے میں شرکت کر لی، پارلیمنٹ کے دوستوں سے جان خلاصی کی، جہاں سے نوجوانوں کو صرف ووٹ اور پوسٹر اور پارٹی کے بیرک کو اونچا کرنے کی خاطر اپنا سٹوڈنٹ ونگز بنانے کی حد تک محدود کیا جاتا تھے، حالانکہ ڈاکٹر نے BSO کی ایک حیثیت بنائی تھی جو کہ ایک عظیم ادارہ ہے، جہاں سے انہوں نے نوجوانوں کو اُن کے اپنے طریقے سے اپنے فیصلے کرنے اور قابلیت کی طرف گامزن کر دیا تھا۔

شاہین نے بھی ڈاکٹر کی بوئی ہوئی اس بیج کی آبیاری کے لیئے جہد شروع کی اور 2002 میں مچھ زون کے عہدیدار بنے۔
2003 میں کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر انہوں نے بولان ادبی دیوان کی بنیاد رکھی 2005 میں وہ دیوان کے چیئرمین منتخب ہوئے، اپنی ذمہ داریوں کو ہمیشہ اپنا فرض اور مادر وطن کی مٹی کا قرض سمجھ کر انہوں نے خلوصِ دل سے اپنی خدمات سرانجام دیئے، اُنکی نثر و شاعری میں ہمیشہ بلوچ قوم کی لاچاری و غلامی کی جھلک نظر آئی۔ اپنے ہر نثر و شعر میں وہ بلوچ قوم کی مظلومیت اور بےبسی کو بیان کرتے رہے اور یہ بتاتے رہے کہ آزادی ہمارا بنیادی حق ہے اور ہمیں اپنی آزادی سے کوئی نہیں روک سکتا.
2006 میں انہوں نے صحافت کی دنیا میں قدم رکھا، روزنامہ توار مستونگ جو کراچی سے شائع ہوتی تھی کے نامہ نگار بن گئے.
شاہین نے بلوچ راج پر ریاستی دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھائی، جہاں انہوں نے ہمیشہ یہ درس دیا کہ اپنے حق کے لیئے آواز اُٹھاؤ، لڑو چاہے اس میں کیوں نہ تمہاری جان چلی جائے، مگر ریاست کی غلامی کو ہرگز قبول مت کرنا۔ انہوں نے بتایا ظلم کا یہ تسلسل ایک عمر سے بلوچ قوم پر جاری ہے، اب مزید اس غلامی کے بوجھ کو نہیں اٹھا سکتے، اب وقت آگیا ہے کہ ہم یہ زنجیریں توڑ دیں، دنیا میں لاکھوں لوگ اپنے وطن کی آزادی کے لیے کٹ مرے، گھر بار لٹاچکے، خون کی ندیوں سے گذر کر قربانیاں دیں، اپنی شاعری میں وہ بلوچ قوم کی آسودگی اور مہر و وفا کی سوچ و فکر رکھتے تھے۔

2007 میں بولان پریس کلب کے ممبر بنے اپنی صحافتی ذمہ داریوں پر دن رات محنت کی وجہ سے 2009 میں شہید خلیل سمالانی پریس کلب مچھ کے پریس سیکرٹری بنے، ماہنامہ رسالہ برانز مستونگ اور بی ایس او آزاد کے مرکزی ترجمان “سگار” کے لیئے باقاعدگی سے اپنی فکری و نظریاتی شعر و نثر لکھتے رہے. توار اور برانز کے علاوہ اُنہوں نے آزادی شال، ایلم مستونگ، استار سوراب، نوائے بولان اور چراگ نوشکی کے نامہ نگار تھے۔.

8 دسمبر 2009 کی شام تقریباً 7:30 بجے کے قریب معمول کے مطابق وہ اپنی ڈیوٹی پر واپڈا گریڈ جا رہے تھے کہ مچھ پولیس نے انہیں بنا وارنٹ کے کسی وفاقی وزیر کے حکم سے دزگیر کر لیا اور وہاں سے انہیں قلی کیمپ کوئٹہ منتقل کر کے اُن پر تشدد کی انتہا کر دی گئی، چاہے الیکٹرک شاکس ہوں یا ذہنی ٹارچر یا پھر الٹا لٹکانا یا سگریٹ کے داغ ہر طرح کی اذیتیں ان پر ڈھائیں گئیں۔
انہوں نے وطن کی محبت میں، “تشدد سے جسم تو فنا ہو سکتا ہے مگر نظریہ نہیں” کی وہی داستان دہرائی جو ہمیشہ سے چلی آ رہی تھی، جو تاحال جاری ہے، شاہین سے پہلے کتنے قلم کاروں کو بے گواہ کرکے ٹارچر سیلوں میں اذیتیں دی گئیں تھیں، یہی ہمارا نصیب بنادیا گیاہے اس ریاست میں، مگر انسان دیکھے اور ٹٹولے جا سکتے ہیں ان پر حملہ کیا جا سکتا ہے انہیں قید کر کہ تختہ دار پر لٹکایا جا سکتا ہے لیکن اسکے خیالات نظریات اسکی سوچ پہ قابو نہیں پایا جا سکتا۔

صحافی برادری اور وطن دوستوں کی احتجاج پر 5 دن کی ذہنی و جسمانی ٹارچر کے بعد 13 دسمبر کے دن اُنہیں ڈرامائی انداز میں منظر عام پر پیش کر کے سبی صدر تھانے میں بند کر دیا گای، طبیعت ناساز ہونے کے باعث ان سے ملاقات پر پابندی تھی. 14 دسمبر کو ان کے گھر پر 14 گاڑیوں میں ATF اور پولیس نے دوبارہ چھاپہ مارا، جہاں میڈیا کے سامنے اُن کے گھر سے دستی بم اور دوسرے کچھ مواد ملنے کا ڈرامہ رچاکر اُن پر مقدمہ بنایا گیا، مگر عدالت میں کوئی ثبوت پیش نہ کرنے پر انہیں مہینوں کے بعد بری کر دیا گیا.

اس کے بعد وہ گھر سے باغی ہو کر کبھی کہاں تو کبھی کہاں اپنے فرائض انجام دیتے رہے، اپنے ادھورے کام مکمل کرنے کے عزم میں مصروف شاہین نے مچھ و بولان میں اپنے قومی فرائض انجام دیئے، دشمن کے لیئے یہ ایک انتہائی ناقابل قبول بات تھی کہ شاہین جیسا بہادر اور وطن پر مر مٹنے والا عاشق جو اُن کے ہاتھ آنے کے باوجود اُن سے راز نہ نکلوا سکے دشمن کے ہاتھ آ کر انہیں شکست دے کر انکے ہاتھوں سے نکلا، مگر شاید تنظیموں کی عدم پالیسیوں کی وجہ سے آخر کار دشمن پھر سے اپنی چالوں میں کامیاب ہوا اور اپنے مخبروں کے ذریعے ایک بار پھر شاہین کو 12 مارچ 2011 کے دن اغواء کرلیا اور ٹھیک 20 دن بعد یکم اپریل 2011 کے دن اُنکی تشدد زدہ جسم دھرتی کا قرض ادا کرتے ہوئے دھرتی کی گود میں ہمیشہ کے لئے امر ہوگیا۔