خضدار میں پرائیوٹ اسکولوں کی بھر مار ہے لیکن ایجوکیشن کوالٹی صفر ہے تمام اسکول تعلیم کی حصول اور بچوں کو بہتر تربیت فراہم کرنے کے بجائے بزنس اور منافع کی غرض سے کھولے گئے ہیں اور جو لوگ ان اسکولوں کو چلا رہے اُن میں ایسا کوئی نہیں جو تعلیمی ماہر ہو یا خود اعلٰی تعلیم یافتہ ہو جو تعلیمی کی بہتری اور بچوں کی بہترین مستقبل اور تعلیم و تربیت کے لئے بہترین اقدامات کرسکیں ۔
دی بلوچستان پوسٹ نمائندے کے مطابق خضدار کے گلی گلی اور گھر گھر میں اسکول کھولے گئے ہے اور ان اسکولوں میں تعلیمی سہولیات اور قابل اساتذہ کے بجائے 4000/ 5000 روپے سیلری پر رکھا جاتا ہے جو بچوں کو رٹے رٹائے سبق پڑھانے تک محدود ہے۔
اب تعلیم ایک منافع بخش کاروبار کا روپ دھار چکا ہے پرائیویٹ اسکولز میں بھاری فیس لیا جاتا ہے اس کے علاوہ ہر اسکول کے سربراہ نے اپنے اسکول کا الگ یونیفارم اور نصاب منتخب کیا ہے اور یونیفارم اور کتابوں کا کاروبار بھی خود کرتے ہیں بازار کے نسبت انتہائی مہنگے فروخت کرتے ہے جبکہ بچوں پر پابندی ہیکہ وہ اسکول کے باہر سے کتابیں، کاپیاں ، یونیفارم سمیت دیگر ضروریات کی چیزیں خرید نہیں سکتے۔
جبکہ اعلٰی حکام تعلیم اور ضلعی انتظامیہ بھی اسکول مالکان کیساتھ ملے ہوئے ہے اُنکی ملی بھگت سے اسکول مالکان لوٹ کھسوٹ کررہے ہیں۔
جبکہ سرکاری اسکولوں میں تعلیم کی صورتحال انتہائی ابتر ہے ، ٹیچر بچوں کو پڑھانے کے بجائے یونین سازی، سیاست میں مصروف ہے ، محکمہ تعلیم میں بھرتیاں میرٹ اور قابلیت کے بجائے سیاسی بنیادوں، سفارش اور رشوت کے ذریعے کئے جاتے ہیں اس کے علاوہ آفسران کی تبادلے اور پوسٹنگ بھی سیاسی بنیادوں یا رشوت لے کر کئے جاتے ہیں بلکہ تعیناتیوں سے لیکر پوسٹنگ و تبادلے کے ریٹ فکس ہے اس گھناونے عمل میں صوبائی وزیر تعلیم، سیکرٹری تعلیم سمیت دیگر اعٰلی حکام براہ راست شامل ہے۔
سفارش اور رشوت نے تعلیم اور تعلیمی اداروں اور نظام کو مکمل مفلوج بنا کر رکھے ہیں،خضدار میں تعلیمی نظام مکمل مخدوش اور انحطاط پزیری کا شکار ہے۔
ایک گہری سازش کے تحت تعلیمی عمل کو مفلوج کرکے طلباء و طالبات کے ذہینی و تعلیمی صلاحیتوں کو تباہ کی جاری ہیں، خضدار کے تعلیم دوست، سیاسی و سماجی کارکن بچوں کے مستقبل کو تاریک ہونے سے بچانے کے لئے کردار ادا کریں اور بچوں کے ساتھ ساتھ شہر و قوم کی مستقبل کو تباہی و بربادی سے بچانے کے لئے کردار ادا کریں