بلوچ سوشل میڈیا ایکٹویزم کی خلاء میں اکیلی لڑتی خدیجہ
حکیم واڈیلہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ: کالم
سوشل میڈیا نے آج جہاں دنیا کو ایک دوسرے سے اتنا قریب کردیا ہے کہ آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھ کر اپنے موبائل، لیپ ٹاپ یا پیڈ سے کسی سے بھی کنیکٹ ہوسکتے ہیں اور کسی بھی خبر پر نظر رکھ سکتے ہیں، کسی سے بھی حال احوال کرسکتے ہیں، تو وہیں سوشل میڈیا ایک پیغام رسانی اور اپنی دبی ہوئی آواز کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنے کا ذریعہ بھی بن چکا ہے۔ اگر آپ کی رسائی کسی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا تک نہیں تو ٹویٹر یا فیسبک پر اپنا پیغام رکھ کر دنیا کے سامنے اپنا مسئلہ رکھ سکتے ہیں ۔
مسئلوں سے گِھرے بلوچستان کے باشندے بھی کسی طرح کے رسمی میڈیا سے محرومی کے سبب سوشل میڈیا کو ہی اپنا مظبوط ہتھیار سمجھ کر استعمال کرتے ہیں اور اپنے اوپر گذرنے والے ظلم و بربریت کی داستانیں بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح بلوچستان کے علاقے تربت سے تعلق رکھنے والی خدیجہ بلوچ نے بھی اپنے چودہ سالہ نوجوان بھائی عاصم امین بلوچ کے اغواء نما گرفتاری کا مسئلہ سوشل میڈیا پر اٹھایا ہوا ہے۔
عاصم امین بلوچ جنہیں چار مارچ 2018 کو تربت سے سینکڑوں لوگوں کے سامنے، پاکستانی خفیہ اداروں اور فوج کے اہلکاروں نے اٹھا کر لاپتہ کردیا تھا، جن کے بارے میں ابتک کسی بھی طرح کا کوئی خبر موصول نہیں ہوئی کہ وہ کہاں ہیں، کس حال میں ہیں کیوں لاپتہ کیئے گئے ہیں۔ اس کمسن طالب علم کو کس جرم کی پاداش میں گرفتار کرکے لاپتہ کردیا گیا، وہ بھی ابھی تک کسی کو معلوم نہیں ہوسکا۔ لاپتہ عاصم کی بہن بی بی خدیجہ بلوچ نے اپنے مختلف ٹویٹر پیغامات میں اپنے پیارے بھائی کی گمشدگی کا نوحہ کچھ یوں بیان کیا ہے کہ “انکا کمسن بھائی تربت میں آرمی کی سرپرستی میں جاری فیسٹیول میں شرکت کرنے گئے تھے، جنہیں ہزاروں عینی شاھدین کے سامنے سے اٹھا کر لاپتہ کردیا گیا تھا۔” خدیجہ بلوچ کے بقول “جب ہم اپنے بھائی کی گمشدگی کی رپورٹ لکھوانے پولیس کے پاس گئے، تو انہوں نے ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم آپ کی شکایت درج کرینگے، تو خفیہ ایجنسیاں ہمارے لیئے مشکلات پیدا کرینگی۔”
خدیجہ بلوچ بھی باقی بلوچ بہنوں کی طرح اپنے لاپتہ بھائی کی بازیابی کیلئے جدوجہد کررہی ہیں اور وہ دنیا کے تمام انسانی حقوق کے اداروں جن میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں، اقوام متحدہ ، بلوچ سیاسی جماعتوں اور تمام انسان دوست لوگوں سے اپیل کرتی نظر آتی ہیں کہ انکے بھائی کی جلد بازیابی، انکے بھائی کی سلامتی اور واپسی کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ مگر صد افسوس کے عالمی اور علاقائی انسانی حقوق کی تنظیموں سمیت پاکستانی نظام عدل بھی بلوچستان میں جاری اس سنگین انسانی المیہ پر نا صرف عدم دلچسپی کا اظہار کرتی نظر آتی ہے، بلکہ ایسے انسانیت سوز مسئلے کو یکسر نظر انداز کرکے پاکستانی ریاستی فورسسز کو بلوچستان میں ظلم و بربریت کو جاری و ساری رکھنے کا جواز فراہم کررہی ہے۔
خدیجہ بلوچ نے گزشتہ دنوں اپنے ٹوئیٹر پر ایک پیغام جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ “ہمیں نامعلوم نمبروں سے دھمکی آمیز فون کال موصول ہورہے ہیں اور کہا جارہا ہے کہ اگر ہم نے اپنے آبائی علاقے سے ہجرت نہ کی تو ریاستی سرپرستی میں چلنے والے لوکل ڈیتھ سکواڈ کے ذریعے ہمیں قتل کروا دیا جائے گا۔”
اس پوری صورتحال میں جہاں بلوچستان میں شائد ہی کوئی گھر ایسا بچا ہو، جہاں سے کوئی شخص لاپتہ نا ہوا ہو یا انکے کسی پیارے کی مسخ شدہ لاش ویرانوں میں نا ملی ہو۔ اس سنگین صورتحال میں ہماری بکھری ہوئی طاقت جو کہ سوشل میڈیا میں سلیکٹیو ایکٹیوزم کی جانب گامزن ہے، کس طرح اپنی بہنوں کی آواز بن سکتی ہے؟ ہمیں بحیثیت قوم یہ بات ضرور سوچنی چاہیئے کہ کیا ہم سب اپنی باری کا انتظار کرینگے کہ کل کو کوئی ہمارا اپنا پیارا لاپتہ ہو تب ہی ہم انکی آواز بنینگے؟ یا پھر اجتماعی طور پر اس ظلم و بربریت کیخلاف مشترکہ اور منظم جدوجہد کرکے اپنے قوم کو اس ریاستی جبر اور قومی غلامی سے آزاد کرائینگے۔